اسرائیلی فوج نے غزہ کو ایک سال میں ملبے کا ڈھیر بنا دیا، غزہ کے باشندے حیران ہیں کہ لاکھوں ٹن ملبے سے کیسے نمٹا جائے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ غزہ میں جنگ کے بعد 42 ملین ٹن سے زائد ملبہ جمع ہو چکا ہے، جو 2008 سے لے کر جنگ کے آغاز تک جمع ہونے والے ملبے کی 14 گنا مقدار ہے۔
ملبے کی اتنی بڑی مقدار کو ہٹانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ کام مکمل کرنے میں 14 سال لگ سکتے ہیں۔
ملبے میں پوشیدہ لاشیں اور دھماکا خیز بم ایک اور بڑا مسئلہ ہیں۔
فلسطینی صحت کی وزارت کے مطابق، تقریباً 10 ہزار لاشیں ابھی تک ملبے میں دبی ہوئی ہیں۔
اس تباہی کی شدت سے نمٹنے کے لیے، غزہ کے حکام اور اقوام متحدہ نے مل کر ایک پائلٹ منصوبہ شروع کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ خان یونس اور دیگر علاقوں سے سڑکوں پر پڑے ملبے کو صاف کیا جا سکے۔ لیکن اس کام کے لیے بڑے پیمانے پر مشینری اور فنڈز کی ضرورت ہے، جو موجودہ حالات میں ایک چیلنج ہے۔
غزہ کے حکام امید رکھتے ہیں کہ ملبے کا ایک حصہ سڑکوں اور سمندری کناروں کو مضبوط کرنے کےلیے دوبارہ استعمال کیا جائے گا، لیکن موجودہ جنگی صورتحال اور اسرائیلی پابندیوں کے باعث یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔
خان یونس میں اپنے دو منزلہ گھر کے ملبے پر کھڑا 11 سالہ محمد گرے ہوئے چھت کے ٹکڑوں کو ایک ٹوٹے ہوئے ڈول میں جمع کرتا ہے اور اسے کنکریوں میں تبدیل کرتا ہے، جسے اس کا والد جنگ کے متاثرین کی قبریں بنانے کےلیے استعمال کرے گا۔
11 سالہ محمد کے والد جو تعمیراتی کمپنی میں بھی کام کرچکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ ملبہ گھروں کو بنانے کے لیے نہیں جمع کرتے، بلکہ قبریں اور کتبے بنانے کے لیے۔ یعنی ایک مصیبت سے دوسری مصیبت میں جا رہے ہیں۔‘
اس محنت کے ساتھ ایک دکھ بھری حقیقت بھی جڑی ہوئی ہے۔ مارچ میں، شمالی کے بیٹے، اسماعیل کی قبر بنانے میں بھی یہی ملبہ استعمال ہوا، جو گھر کے کام کاج کے دوران شہید ہوگیا تھا۔