اسلام آباد /کراچی (خالدمصطفی/ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے انکشاف کیا ہے کہ سسٹم کو 5آئی پی پیز سے بجلی درکار نہیں ‘حکومت ڈیمانڈ مینجمنٹ کے حوالے سے پانچ سالہ پالیسی پر کام کررہی ہے ‘سی پیک منصوبوں کی ڈیٹ پروفائلنگ کے نتیجے میں ساڑھے تین سے پونے چار روپے فی یونٹ ریلیف ملے گا‘.
حکومت نے سی پیک پاورپلانٹس میں استعمال ہونے والے چینی قرض کی پروفائلنگ کیلئےکنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرلی ہیںاوراس ضمن میں حکومت بینک آف چائنا ‘انشورنس کمپنی اور قرض دہندگان کے ساتھ رابطے میں ہے‘ 35میں سے 19روپے یونٹ کیپسٹی چارجز ہیں ‘یہ شرح 50فیصد سے بھی زیادہ ہے ‘چند ماہ میں بجلی کی قیمتیں کم ہوں گی ‘ پاور سیکٹر میں بہتری سے قیمت 15 روپے کم نہیں ہوگی ‘ پیداوار‘تقسیم ‘ترسیل اور دیگر امور بہتر بنانے ہوں گے ‘کوئی معاہدہ یکطرفہ ختم نہیں کررہے ‘ مختلف طریقوں سے ڈیل کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ بہتر قیمتوں پر آسکتے ہیں‘حکومت پاور سیکٹر میں درکار اصلاحات پر عملدرآمد میں کافی سنجیدہ ہے اوربجلی بلوں میں اضافے کا سبب بننے والے ٹیکسوں کا بھی جائزہ لے رہی ہے ۔
سابق نگراں وزیر گوہر اعجاز نے کہاکہ آئی پی پیز 2ہزار فیصد ریٹرن لے چکے اور اب سوفیصد ریٹرن حاصل کر رہے ہیں‘مہنگائی کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھنا بند ہوگئی ہے ‘ سب سے بڑامسئلہ معاہدوں کا ہے کہ بجلی بناؤ یا نہ بناؤ پیسے دیں گے‘آئی پی پیز نے بجلی بنانے کے 5ہزار کروڑ وصول کئے ‘نہ بنانے کے 26ہزار کروڑ روپے وصول ہو رہے ہیں ‘ بجلی پیداوار 47ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی مگر کھپت میں اضافہ نہیں ہوا ‘ اس وجہ سے کیپسٹی چارجز بھی بڑھے ہیں ‘ سی ای او حبکو کامران کمال کا کہنا ہے کہ ہمیں 15فیصد منافع مل رہاہے ‘پیسہ کمانا جرم نہیں ہے‘ہم معاہدے کی پاسداری کر رہے ہیں اور اگر ہم نے اپنے معاہدے سے زائد منافع کمایا ہے تو ہم ذمہ دار ہیں‘ کوششوں کے بغیر اصلاحات بے سود ہوں گی ‘ایسا نہیں کہ آئی پی پیز کا مسئلہ حل ہوگیا تو سب ٹھیک ہوجائے گا‘عالمی ماہرین لے آئیں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا‘فارنزک آڈٹ کیلئے تیار ہیں ‘ لکی الیکٹرک پاور کے سی ای او روحیل محمد کاکہناکہ حکومت کو اپنے معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہئے ‘معاہدے ختم کرنے سے سرمایہ کار کا اعتماد تباہ ہوگا ‘زیادہ منافع کی باتوں میں مدت کو نظرانداز کیا گیا ‘ماہر معاشیات عمار حبیب خان نے کہاکہ کیپسٹی پیمنٹ کو ہم نے ولن بنا دیا ہے‘آئی پی پیز بند کردیں تب بھی بل کم نہیں ہوں گے ‘بجلی سے متعلق دیگر چیزیں بھی بہت مہنگی ہیں ‘نائب صدر ایف پی سی سی آئی آصف انعام کا کہناہے کہ آئی پی پیزمعاہدوں پر دوبارہ بات چیت ہونی ہی ہونی ہے ‘ہم جانتے ہیں کہ پورے خطے میںقیمتیں نیچے جارہی ہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیونیوزکی ’’ گریٹ ڈیبیٹ ‘‘میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
آئی پی پیز کے معاملے پر دوگھنٹے تک ’’پاکستان کیلئے کرڈالو‘‘کی تھیم کے ساتھ زبردست بحث کی گئی ۔اویس لغاری کا کہناتھاکہ پاکستان کے اندر جنریشن کی قیمت غیر معمولی طور پر زیادہ ہے‘ نیشنل ٹرانسمیشن کے اندر بڑے مسائل موجود ہیں اور ڈسٹربیویشن میں لائن لاسزسمیت ریکوری کے مسائل موجود ہیں جو سالانہ پانچ سو سے چھ سو ارب روپے کا مزید بوجھ ڈالتے ہیں‘مسائل کیپسٹی پیمنٹ میں ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنے بھی جنریشن پلانٹس ہیں چاہے وہ حکومت ‘پرائیوٹ سیکٹر یا چائنیزسی پیک کے ہوں سب کے ساتھ اس وقت مختلف طریقے سے ڈیل کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ بہتر قیمتوں پر آسکتے ہیں اس لیے ہم سب کے ساتھ بات کررہے ہیں ‘ہم سمجھتے ہیں کہ اگلے چند مہینوں میں کچھ بہتری ضرور آئے گی۔
ایک اندازے کے مطابق سو ارب کی وجہ سے یونٹ میں ایک روپے کی کمی آئے گی۔ پاور سیکٹر میں کوئی ایسی ایک چیز نہیں ہے جس کو کم کرنے سے دس سے پندرہ روپے کا فرق پڑے۔ٹرانسمیشن میں بہتری لانے سے ایک ڈیڑھ کا فرق پڑ سکتا ہے‘پیداواری لاگت سے ڈھائی سے ساڑے تین روپے کا فرق پڑسکتا ہے‘ چائنیز کے ساتھ ری پروفائلنگ آف ڈیٹ ہے جس سے ساڑے تین چار روپے کا فرق پڑسکتا ہے۔
اگر سیلز ٹیکس کم کریں گے تو یہ تمام چھ سات قسم کے اقدامات ہیں جو لیے جاسکتے ہیں ۔ہم اس حکومت کے شروع سے ہی ایک ایک پلانٹ کو دیکھ رہے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ باہمی رضامندی کے ساتھ معاہدے پر کس طرح پہنچ سکیں گے۔ ہم نے کسی وقت بھی کسی بھی معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا نہ کبھی کہا نہ آج کہہ رہے ہیں۔ایک چیز دونوں طرف محسو س کی جارہی ہے کہ بجلی کی موجودہ قیمتوں کا کم ہونا ضروری ہے‘ سی ای او حبکو نے جو بات کی ان کی بات کو سراہتا ہوں کہ صرف آئی پی پیز سےدوبارہ بات چیت کرکے معاملہ آگے نہیں چلے گا۔ ریٹرن اینڈ ایکوٹی اگر تمام گورنمنٹ پلانٹس کا اَسی نوے فیصد بھی کم کر دیں اس کا ایک سوا روپے کا اثر آئے گا۔ان کا کہناتھاکہ یہ درست ہے کہ این ٹی ڈی سی کو ری اسٹرکچر کون کرے گا۔میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ عمران خان کی حکومت میں محمد علی رپورٹ کی بنیاد پر حکومت کو اس کا کوئی خاص فائدہ ہوا تھا آربیٹریشن میں اس وقت کی کابینہ میں اس چیز کو پھینکا ہی اس لیےگیا تاکہ ہم اس کے فرانزک آڈٹ اور ہیٹ آڈٹ کے کلیمز ہیں انہیں آڈٹ میں لے جانے کے بجائے آربیٹریشن میں پھینک دیں۔ اس وقت کے پالیسی میکرز نے آئی پی پیز کو اسپیس دی ہے۔
پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے سابق نگراں وزیرگوہراعجاز نے کہاکہ عوام کے تنگ ہونے کی ایک وجہ بجلی کی قیمت ہے۔ مہنگائی کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھنا بند ہوگئی ہے۔سب سے بڑامسئلہ معاہدوں کا ہے کہ بجلی بناؤ یا نہ بناؤ پیسے دیں گے۔اگر آپ کا بجلی استعمال کم ہوجائے گا تو کیپسٹی چارجز اور بڑھ جائیں گے ۔
ٹاسک فورس نے واقعی محنت کی ہے پہلے پانچ پلانٹ جو بجلی بنا ہی نہیں رہے تھے دس ہزار کروڑ روپے ہیں جو بجلی پانچ پلانٹوں سے لے رہے ہیں جو بجلی بنا ہی نہیں رہے تھے۔ ایک ایک گروپ چھبیس چھبیس ہزار کروڑ لے رہا ہے اس میں ایک ایسا گروپ موجود ہے ان کو اگر کیپسٹی پر دوں پانچ ہزار کروڑ بنے گااس گروپ کا جتنی بجلی انہوں نے بنائی لیکن بجلی بند کر کے چھبیس ہزار کروڑ لے رہے ہیں مطلب اکیس ہزار کروڑ ایکسٹرا لے رہے ہیں۔ معاہدے حکومت کو تبدیل نہیں کرنے چاہئیں کیوں کہ سرمایہ کار کا اعتماد ختم ہوجائے گا لیکن یہ بتائیے کہ کنٹریکٹ دو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے جس میں ایک حکومت دوسرے یہ ایک سو سات پاور پلانٹس تھے ۔ کیا ایک سو سات پاور پلانٹس نے جو معاہدہ کیا جس کے تحت ساورن گارنٹی تو کیا انہوں نے یہ پورے کیے۔
پاور پلانٹ لگے کوئلے کے دنیا سے دگنی قیمت میں آپ نے اس کے بعد جعلی کیٹلاگ چھپوا دئیے فرنس آئل کے پلانٹوں کے کہ ہمارا فیول کا استعمال زیادہ ہے جعلی کیٹلاگ چھپوا کر حکومت سے ہزاروں کروڑ فیول کے استعمال کی مدمیں لئے گئے ۔ ونڈ پاور لگانے آئے دگنی قیمت میں لگایا،میں یہ کہہ رہا ہوں ان میں سے کچھ سچے اور اچھے بھی ہوں گے۔ ستائیس ونڈ پاور لگے ہیں جس میں سے پندرہ لگے ہیں چودہ سینٹ میں ،باقی لگے ہیں چار سینٹ ۔اب یہ کہا جائے کہ حکومت کا معاہد ہ ہوا ہے ہم نے چودہ سینٹ میں لینی ہے، ان کا فرض تھا یہ ایمانداری سے کام کریں۔پروگرام میں اظہارخیال کرتے ہوئے سی ای او حبکو کامران کمال نے کہاکہ ہم نے انٹرنیشنل سرمایہ کاروں کو دعوت دی اور یہ پور ا پلان آئی پی پیز کے لیے نہیں بنا تھا پوری ڈی ریگولیشن کے لیے بنا تھا صارفین کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنا تھا۔98 اور 2001 میں ایک بحران آیا جب ہمارے پاس بجلی کی پیداوار زیادہ ہوگئی اور ہم نے پچھتاوا شروع کر دیا اسی طرح کے الزامات لگے، میری کمپنی پر چودہ کیسز کیے گئے تین سال اس کو ہم نے بھگتا تین سال کے بعد معاہدہ ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 2002 کی پالیسی کا اعلان ہوا تو ایک بھی انٹرنیشنل انویسٹر ملک میں نہیں آیا۔ 2006 میں ہم نے لوکل انویسٹر کو دعوت دی پھر 2013-14 سرکلر ڈیٹ کا مسئلہ بڑھا ۔ اس کے بعد ہم 2020 کی سنتے ہیں جب یہاں پر وزیراعظم نے خوشی منائی کہ لوکل سرمایہ کار نے ملک کی خدمت کے لیے آٹھ سو ارب کی قربانی دی ہے اور وہ وہی لوگ ہیں جن کو آج بھی ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر کسی نے زائد منافع بنایا ہے تو اس کو ملک کو واپس کرنا ہے اس کے لیے تین آربیٹریٹر تعینات ہوئے‘ ایک سپریم کورٹ یو کے کے ریٹائرڈ جج کو اپائنٹ کیا گیا اور آج دو سال تک حکومت نے اس پر کوئی کام نہیں کیا۔
92 کے اسٹریٹجک پلان کے مطابق ڈسٹریبویشن کمپنی کے لاسز چوری اس کو ٹھیک کیا جائے گا نیشنل ٹرانسمیشن ڈسٹربیوشن کو ریفارم کریں گے اس اَسی فیصد حصے کو کچھ نہیں کرتے اور اب 92 سے اس میں کوئی پراگریس نہیں ہوئی ۔ جو بتیس سال میں نہیں ہوا ہمیں نہیں لگتا اگلے چھ مہینے میں بھی بدلے گا ۔ سی پیک کے لیے جب ٹیرف دیا گیا تو حکومت پاکستان نے نیپرا کو کہا ایسا ٹیرف دیں جو چینیوں کےلئے پرکشش ہو اور اس کی ایک ہی شرط تھی کہ ایک ٹیرف ہے اگر آپ کو قابل قبول ہے اس میں نقصان ہو یا منافع یہ آپ کا ٹیرف ہے اس وجہ سے یہاں سرمایہ کاری ہوئی اور دس ہزار میگاواٹ کے پاور پلانٹ لگنے تھے اور جب آپ نے یہ لگا لیے تو کیا وجہ تھی کہ پانچ ہزار میگاواٹ کے امپورٹڈ فیول کے پاور سینٹر آف کنٹری میں لگاتے جو آج چلانے کی وجہ سے سستے پاور پلانٹ ساؤتھ میں جو لگے ہیں وہ بند رکھنے پڑتے ہیں اور اسکا تین سو ارب روپے صارفین دیتے ہیں ۔اگر ہم نے معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے جو حکومت نے ہمارے ساتھ کیا اور پھر بہت سے اداروں نے دیکھا اگرہم نے اس کی خلاف ورزی کی ہے تو ہم ذمہ دار ہیں ۔پیسہ کمانا جرم نہیں ہے اور اگر میں نے اپنے معاہدے سے زائد منافع کمایا ہے تو ہم ذمہ دار ہیں۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے لکی الیکٹرک پاور کے سی ای او روحیل محمد کاکہناتھاکہ اگر آپ نے معاہدہ کیا ہے اور اس کی جوشرائط ہیں جو دو تین دفعہ گفت و شنید بھی ہوچکی ہے تو آپ اس معاہدے کے ساتھ کھڑے رہیں۔پروگرا میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر معاشیات عمار حبیب خان نے کہاکہ کیپسٹی پیمنٹ کو ہم نے ولن بنا دیا ہے ۔ اس میں ایک ڈیڈ کا عنصر ہوتا ہے ایک ایکوٹی کا ہوتا ہے اور بھی دوسری چیزیں ہوتی ہیں ۔ ڈید کا عنصر زیادہ کیوں ہے وہ اس وجہ سے کہ جب ہم نے پراجیکٹ لگائے تھے وہ ڈالر کی بنیاد پر لگائے تھے جب ڈالر بیسڈ لون لیں گے 2021-22 میں اٹھارہ ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا یعنی امپورٹ کے چکر میں ہم نے ڈالر خرچ کر دئیے ۔ ڈالر ایک سو ستر سے 320 تک چلا گیا ڈالر بیسڈ ڈیٹ روپے میں بڑھ گیا۔ کیپسٹی پیمنٹ کا ڈی ویلیوایشن اور انٹرسٹ کی وجہ سے کونٹیم بڑھا ہے ۔نائب صدر ایف پی سی سی آئی آصف انعام کا کہناتھاکہ یہ ڈرامائی کیفیت پید اکی جاتی ہے کہ ڈی ویلیوایشن کی وجہ سے ہورہا ہے ایسا کچھ نہیں ہے ۔ ٹیک اور پے معاہدے تھے اس سے یہ ہوا کہ جو ایکوٹی سرمایہ کار تھے ان کا کوئی رسک ہی نہیں ہے پوری دنیا میں بھی اگر بریک ڈاؤن انشورنس لیں تو آپ کو ساٹھ ستر فیصد فکس کوسٹ کا ملتا ہے تو کم سے کم یہ ہونا چاہیے تھا کہ آپ کا ٹیک اور پے نہیں ہو رہا تو آپ کو ایکوٹی پر ریٹرن نہیں ملے گی آپ کو صرف بریک ڈاؤن کم سے کم فکس کاسٹ ملے گی۔ حل صرف یہ ہے کہ آئندہ کے لیے مارکیٹ بنے ان معاہدوں پر دوبارہ بات چیت ہونی ہی ہونی ہے ‘ہم جانتے ہیں کہ پورے خطے میں میں قیمتیں نیچے جارہی ہیں ۔بجلی کی قیمتیں کم کرنے سے متعلق اویس لغاری کا کہنا تھاکہ ڈسٹری بیوشن کے بورڈ پہلی مرتبہ بغیر سیاسی مداخلت کے بنے ہیں۔
بجلی کی قیمت کم کیے بغیر ڈیمانڈ نہیں بڑھے گی‘ہماری ریگولیٹری میں بہت کمزوریاں رہ چکی ہیں۔ جن قیمتوں پر ٹیرف دئیے گئے وہ قیمتیں اس وقت دنیا کے اندرمسابقتی نہیں تھیں ۔ آپ میں سے کسی نے کبھی یہ پوچھا ہے کہ اگلے جو سترہ ہزار میگاواٹ ہیں پچھلی حکومتیں جو کمٹ کر چکی ہیں وہ کس قیمت پر کیا ہے اور بھاشا ڈیم کس قیمت پر آنے والا ہے۔ ہماری مجموعی پالیسی میں بہت خامیاں رہ چکی ہیں جن میں آج ہی بہتری لانے کی ضرورت ہے‘یہ بات کرنا کہ پاکستان میں کوئی سرمایہ کار نہیں آئے گا اس کی آپ فکر مت کریں پاکستان میں جو لوگوں کو ریٹرن مل رہے ہیں وہ آپ لوگوں کو ملتے رہے ہیں۔ پانچ پلانٹس کی یہ بات ہو رہی ہے کہ سسٹم کو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔
2015 کی پالیسی والے پلانٹس کو بھی دیکھ چکے ہیں ۔چین ہمیں ڈیٹ ری پروفائلنگ پر ایڈوائز کر رہا ہے۔ جتنا بھی پاکستان کے اندر لوکل ڈیٹ ہے پاور سیکٹر کا چاہے وہ سی پیک کا ہو یا نان سی پیک کا ہو اس کو بھی ری پروفائل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم مقامی بینکوںکے ساتھ جتنا بھی ہمارا ڈیٹ ہے ا سکو بھی حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
گوہر اعجاز نے اس حوالے سے کہاکہ میں نہیں جانتا کہ کس کا کتنا قرضہ ہے۔ عوام یہ پوچھ رہی ہے جس کا جواب اویس لغاری نے دیا کہ جنریشن میں چاہے پرائیوٹ سیکٹر ہے، سی پیک ہے یا گورنمنٹ ہے اگر ہم جتنا مال خرید رہے ہیں اس کی پیمنٹ کریں تو انیس کے مقابلے میں انہیں دس روپے دینے ہوں گے نو روپے بچ جائیں گے تو پھر سولہ فیصد ترسیل کا نقصان ہے وہ بھی بچ جائے گا۔
اس پینتیس روپے میں سب سے بڑا حصہ کونسا ہے وہ بیس روپے ہے اگر ہم جتنی بجلی خرید رہے ہیں اتنے پیسے دیں تو آدھا رہ جاتا ہے۔ سالانہ بغیر بجلی بنائے ایک لاکھ کروڑ کا فرق ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں ۔یہ کہہ رہے ہیں ہمارا معاہدہ ہے حکومت دے‘ حکومت کا مطلب یہ ہے کہ عوام نے ادا کرنے ہیں ۔
دو دو ہزار فیصد ریٹرن لے کر جاچکے ہیں اور 2016 سے پہلے والے پلانٹ سب کا ڈیٹ کلیئر ہوچکا ہے اس کے باوجود آپ سو سو فیصد ریٹرن مانگ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر مجھے سو فیصد ریٹرن نہ ملاتو سرمایہ کار پاکستان پر اعتماد نہیں کرے گا۔