• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی تاریخ اگرچہ جنگ و جدال اور خون ریزی سے بَھری پڑی ہے، تاہم امن کے قیام کے لیے کی گئی کاوشیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی معاشرتی ترقّی کے ثمرات ،انسانی تہذیب و تمدّن کی بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔ مذہبی ہم آہنگی کے تناظر میں گزشتہ دنوں اوستا محمّد میں ایک’’ عوامی فورم‘‘ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مقامی اقلیتی رہنماؤں، علمائے کرام، سیاسی و سماجی قائدین، منتخب عوامی نمایندوں اور انتظامی افسران نے اظہارِ خیال کیا۔

ہندو سِکھ پنچایت کے مُکھی، نانک سنگھ نے اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہمارے آباو اجداد چار دہائی قبل پاکستان میں امن، چین اور سکون سے رہتے تھے۔ مسلمان، ہندو، سِکھ یا دیگر مذاہب کے مابین مختلف امور پر ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ ہم اپنے بزرگوں سے سُنتے آئے ہیں کہ بلوچستان میں مذہب کے نام پر تفریق نہیں تھی۔ ہم مسلمانوں کے مذہبی تہواروں اور اُن کی خوشی، غمی میں باقاعدہ شریک ہوتے تھے، اِسی طرح مسلمان بھائی بھی ہماری خوشی اور مذہبی تہواروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ مذہبی منافرت تھی اور نہ ہی آپس میں جھگڑے۔ 

یہ سب بعد کی پیداوار ہیں۔ دراصل، باہمی مکالمہ نہ ہونے اور معلومات کی کمی کی بنا پر نفرتیں بڑھتی ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ ہم سب کا مالک ایک ہے اور ہم سب ایک آدمؑ کی اولاد ہیں۔مذہبی ہم آہنگی قائم رکھنے میں جہاں مذہبی رہنماؤں کا کردار اہم ہے، وہیں بلوچستان جیسے قبائلی معاشرے میں قبائلی عمائدین کا بھی کلیدی کردار ہے۔ 

نیز، آج کے دَور میں سوشل میڈیا رابطہ کاری کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے، تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی مختلف مذاہب کے رہنماؤں کو مکالمے کے مواقع ملنے چاہئیں، اس سے بے بنیاد اور شرانگیز پراپیگنڈے کا سدّ ِباب کیا جاسکتا ہے۔ آئینِ پاکستان کے تحت اقلیتوں کو اپنے مذہبی عقائد پر آزادانہ عمل پیرا ہونے اور اُن کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، لہٰذا حکومت کی ذمّے داری ہے کہ وہ متعلقہ شقوں پر اُن کی رُوح کے مطابق عمل درآمد یقینی بنائے۔

علاوہ ازیں، ہمیں باہمی میل جول بھی بڑھانا چاہیے، ایک دوسرے کے تہواروں میں شامل ہو کر نفرتوں اور کدورتوں کو دفن کرنا ہو گا، تب ہی ایک پُرامن، خوش حال پاکستان کے تصوّر کو حقیقت کا رُوپ دیا جا سکتا ہے۔بدقسمتی سے ماضی میں چند ایسے واقعات رُونما ہوئے، جن سے اقلیتوں کے لیے بے شمار مسائل پیدا ہوئے۔ محض افواہوں کی بنیاد پر دنگے فساد کروانے سے ہم سب کا اور ہمارے مُلک کا نقصان ہوتا ہے۔ 

جہاں تک میری معلومات ہیں، پیغمبرِ اسلام ﷺ نے غیر مسلموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔‘‘ایک اور سِکھ رہنما، سرادر مہیش سنگھ نے کہا کہ’’ پاکستان ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے، اِسی پیارے وطن میں ہمارے گرو، بابا نانک جی کا جنم استھان ہے، جہاں ہر سال دنیا بَھر سے سِکھ برادری کے لاکھوں عقیدت مند آتے ہیں اور ہم اِن سہولتوں کی فراہمی پر حکومتِ پاکستان کے بے حد شُکر گزار بھی ہیں۔نیز، ہمارے گرو جی نے بھی ہمیشہ انسان دوستی، بھائی چارے اور روا داری ہی کا درس دیا۔‘‘

ہندو دھرم کے مقامی پیشوا، اشوک کمار نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’تقسیمِ ہند سے قبل ہندو اور مسلمان مِل جُل کر رہتے تھے۔ تقسیم کے بعد بھی پاکستان میں رہ جانے والے ہندوؤں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی میسّر ہے اور ہمیں حکومت کی جانب سے مکمل تحفّظ فراہم کیا گیا ہے۔ اگر بلوچستان کی بات کریں، تو یہاں ہمیں نہ صرف مذہبی آزادی حاصل ہے، بلکہ قبائلی عمائدین کی جانب سے مکمل کاروباری تحفّظ بھی ملا ہوا ہے۔ بعض اوقات ناخوش گوار واقعات سے وقتی طور پر پریشانی ضرور لاحق ہوئی، تاہم اب یہ بات سب کی سمجھ میں آچُکی ہے کہ باہمی نفرتوں کے خاتمے کے لیے کُھلے دل سے ایک دوسرے کو قبول کرنا ہوگا۔ 

پاکستان مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا ایک خُوب صُورت گل دستہ ہے اور اس کی رعنائیاں تب ہی برقرار رہ سکتی ہیں، جب ہم اپنے اپنے دِلوں سے بغض اور نفرت ختم کر کے امن و آشتی کا راستہ اختیار کریں۔بین المذاہب ہم آہنگی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے اعلیٰ پیمانے پر مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ غلط فہمیوں کا تدارک ہو سکے، پھر یہ کہ تعلیمی نصاب میں بھی بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں تاکہ مستقبل کا پاکستان، باہمی نفرتوں سے پاک ہو۔‘‘ اِس موقعے پر مقامی چرچ کے بشپ، خالد مسیح کا کہنا تھا۔

’’انسان دوستی، بھائی چارے اور ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔ پاکستان کے متنوّع معاشرے میں بین المذاہب ہم آہنگی ہماری سماجی، معاشی اور معاشرتی ضرورت ہے، تاہم اِس ضمن میں نصابِ تعلیم سے ایسا مواد حذف کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ جس سے مذاہب کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ ماضی میں بے بنیاد افواہوں اور غلط فہمی کی بنیاد پر ہونے والے فسادات کے بعد مسلمان بھائیوں نے جس کُھلے دل کے ساتھ مسیحی برادری کو اپنے گھروں میں پناہ دی اور ہمیں ہر طرح کے تحفّظ کی یقین دہانی کروائی، قابلِ صد ستائش ہے۔‘‘

بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالمِ دین، مولانا عبدالمجید کا کہنا تھا کہ’’ اسلامی معاشرے کا حُسن، غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک میں مضمر ہے۔ پاکستان مختلف مذاہب و عقائد کے ماننے والوں کا مُلک ہے، یہ ایک ایسا خُوب صُورت گل دستہ ہے، جس کا ہر پھول اپنا الگ رنگ اور خُوش بُو بکھیر رہا ہے، چناں چہ پاکستان کے متنوّع معاشرے میں ہم آہنگی ہم سب کی بقا کی بنیادی ضرورت ہے۔بلاشبہ، پاکستان کی تعمیر و ترقّی میں اقلیتوں کا بھی اہم کردار ہے۔ ہمیں نفرت کے بیج بونے کی بجائے آپس میں بھائی چارے اور باہمی محبّت پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ 

ہمارے آقا ﷺ نے غیر مسلموں کے ساتھ بہتر سلوک کا حکم دیا اور آپ ﷺ کا غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کا عملی نمونہ، ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔‘‘شیعہ علماء کاؤنسل کے صوبائی رہنما، ممتاز علی عمرانی نے کہا کہ’’ مذہبی منافرت کے خاتمے کے لیے علماء کرام کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ہمیں نفرتیں بڑھانے کی بجائے، ایک دوسرے کے مذہب و عقیدے کا احترام کرنا ہوگا۔

ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات میں شرکت کر کے بھی بھائی چارے کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک خوش آیند عمل ہے کہ ہندو برادری، عزاداری میں ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔ یومِ عاشور کے جلوس کے دَوران ہندو اور سِکھ برادری کی جانب سے عزاداروں کے لیے پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔ اِسی طرح ہمیں بھی اُن کی مذہبی تقریبات میں شرکت کر کے ہم آہنگی کا عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے۔‘‘

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کی مشیر برائے ترقّیٔ نسواں، ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے اپنے پیغام میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ’’پاکستان کی اقلیتوں نے ہمیشہ مُلک و قوم کی ترقّی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقلیتوں کے خلاف کسی بھی قسم کے امتیاز یا ناانصافی کو روکنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمّے داری ہے کہ پاکستان میں ہر فرد خود کو محفوظ اور قابلِ احترام محسوس کرے۔ ہم سب کو ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کے لیے کام کرنا ہوگا، جہاں ہم آہنگی اور باہمی احترام غالب ہو۔‘‘ 

اُنہوں نے آئین کے مطابق تمام شہریوں، بشمول اقلیتوں کے تحفّظ، تعلیم و صحت کی سہولتوں اور اقتصادی مواقع تک رسائی کے حکومتی عزم کا بھی اعادہ کیا۔ممتاز قبائلی رہنما، میر عطاء اللہ خان بلیدی نے اِس موقعے پر کہا کہ’’ بلاشبہ پاکستان کی اقلیتوں نے سماجی، ثقافتی اور اقتصادی شعبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اِن کے خلاف کسی قسم کے امتیازی سلوک کی حوصلہ شکنی ہر پاکستانی پر فرض ہے۔ ہمیں ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کے لیے کام کرنا ہوگا، جہاں ہم آہنگی اور باہمی احترام غالب ہو۔‘‘

سابق رکنِ اسمبلی، میر حیدر خان جمالی کا کہنا تھا۔’’پاکستان میں اقلیتوں کو ہر طرح کے تحفّظ کے ساتھ، معاشی ترقّی کے مواقع میسّر ہیں۔ بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں ہندو، سِکھ، عیسائی اور دیگر اقلیتیں خود کو محفوظ تصوّر کرتی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پائے دار امن رواداری، برداشت اور مذہب و عقیدے کے احترام سے وابستہ ہے۔ بلاشبہ، پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، تاہم عدم برداشت اور غلط فہمی کی بنیاد پر ہونے والے ناخوش گوار واقعات ذہنی پس ماندگی کی علامت ہیں، جن کے تدارک کے لیے سِول سوسائٹی کو کردار ادا کرنا ہوگا۔‘‘حقوقِ نسواں کے ضمن میں کام کرنے والی معروف سماجی کارکن، میڈم نور جہاں میمن نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ’’ پاکستان میں اقلیتوں کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ 

بالخصوص ان کی خواتین نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بے مثال کارنامے سر انجام دئیے ہیں۔ سماجی، ثقافتی اور معاشرتی چیلنجز کے باوجود خواتین مذہبی رواداری کے فروغ، بڑھتی خلیج کو کم کرنے، قیامِ امن اور مفاہمت کے لیے پُل کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔خواتین کی سماجی تنظیموں نے بین المذہب مکالمے کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے مذہبی گروہوں کے مابین باہمی احترام پر خاصا کام کیا ہے۔ اِس حوالے سے مسلسل اجتماعات، سیمینارز اور ورکشاپس منعقد کی جا رہی ہیں۔‘‘

مقامی سماجی تنظیم کے چیئرمین، منیر احمد ابڑو کا کہنا تھا کہ’’ مغربی دنیا اسلام سے متعلق منفی تاثر عام کرنے کی مذموم کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، حالاں کہ غزہ جیسے معاملات خُود اُن کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر امن کے قیام، رواداری اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔بین المذہب ہم آہنگی کے فروغ کے ضمن میں تعلیم اور شعور و آگاہی اہم ہیں کہ ان کے ذریعے غلط فہمیاں دُور کی جا سکتی ہیں۔نیز، اسکول، مدارس اور سماجی ادارے بین المذاہب مکالمے کے لیے مؤثر پلیٹ فارم بن سکتے ہیں۔‘‘

میئر میونسپل کارپوریشن اوستا محمّد، میر مظفّر خان جمالی نے بلدیاتی نظام کو مختلف طبقات، برادریوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں جوڑے رکھنے میں کلیدی کردار کا حامل ادارہ قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا۔’’ بلدیاتی نظام دراصل ایک پنچائیت کی بنیاد ڈالتا ہے، جس میں شہر اور دیہی علاقوں کی تمام برادریوں، مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ چناں چہ بلدیاتی ادارے بین المذاہب ہم آہنگی میں مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک خوش آئند حقیقت یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں اقلیتوں کو نہ صرف تحفّظ حاصل ہے بلکہ انھیں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں شمولیت کے مواقع بھی میسّر ہیں۔بلدیاتی اداروں میں مسلم، غیر مسلم کے فرق کو کم سے کم کیا جاتا ہے، ہم سب ایک فورم پر اکٹھے بیٹھ کر عوام کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے لیے اقدامات تجویز کرتے ہیں۔ 

ان اداروں میں ہندوؤں، سِکھوں، عیسائیوں، کوہلیوں اور باگڑیوں سمیت مختلف اقلیتی گروہوں کی بھی نمائندگی ہے۔ ہماری اوّلین ترجیح عوامی مسائل کا حال اور امن کا قیام ہے، جس کے لیے تمام مذہبی گروہوں کے مابین رواداری کا ہونا بے حد ضروری ہے۔‘‘

ایس ایس پی اوستا محمّد، محمّد انوار بادینی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے امن و امان کے قیام اور اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے ضمن میں پولیس کے کردار کو اجاگر کیا۔ اُن کا کہنا تھا۔’’ پُرامن معاشرے کا قیام ہی ہماری ترقّی اور قومی خوش حالی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ غیر مسلم اقلیتوں کا تحفّظ ہماری آئینی ذمّے داری ہے کہ آئینِ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے شہری حقوق دئیے گئے ہیں۔

مذہبی انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں پنپنے والے فرسودہ خیالات یقیناً ماحول میں کشیدگی کا سبب ہیں، لہٰذا ہماری کوشش ہے کہ ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے، جو فرقہ واریت یا مذہبی جنونیت کے شکار ہو کر معاشرے کا امن خراب کرنے کی مذموم کوششوں کا حصّہ بنتے ہوں۔خوشی کی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں مذہبی شدّت پسندی یا فرقہ واریت کا رجحان خاصا کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ صوبے میں تمام مذاہب کے لوگ امن وآشتی، بھائی چارے کے ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں اور اِس ضمن میں قبائلی عمائدین کا بھی نہایت اہم کردار رہا ہے۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید