ہمارے اپنے ذاکر اور نائیک کیا کم تھے کہ بھارت سے نکالے ہوئے مبلغ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سرکاری مہمان کی حیثیت سے مدعو کر لیا گیا؟ الحمدللہ، یہی تو وہ میدان ہے جہاں ہمارا کوئی مدمقابل اور ثانی نہیں۔ کہنے کو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر تسلسل کے ساتھ کلمہ گو مسلمانوں کو تبلیغ کئےجا رہے ہیں۔ اسلام زندہ باد کانفرنس کے عنوان سے اجتماع ہوتے ہیں، تحفظ اسلام کانفرنس کی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے، ختم نبوت پر مذاکرے ہوتے ہیں، محافل میلاد کا انعقاد کیا جاتا ہے، اہل بیت کی شان میں تقریبات ہوتی ہیں، ذاکر معرکہ کربلا کے محاسن بیان کرتے ہیں، جوش خطابت اور انداز بیاں ایسا کہ حاضرین وناظرین اور سامعین پر رقت طاری ہو جاتی ہے ،مجمع دھاڑیں مار کر رونے لگتا ہے ،اردو ہی نہیں تمام علاقائی زبانوں میں اظہار خیال کرنے والے خطیب موجود ہیں ،پیغمبر اسلام ﷺ کی شان بیان کرنے والے ایمان کی حرارت سے ایسی آگ لگاتے ہیں کہ بعض اوقات پوری کی پوری بستیاں جل کر خاک ہو جاتی ہیں ،شمع رسالت کے پروانے حشرات کی طرح کٹ مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ،ایسے انواع و اقسام کے نکتہ داں اور صاحب طرز خطیب اور بے مثل مقرر موجود ہیں کہ دنیا کے ہر موضوع پر لچھے دار تقریر کی جا سکتی ہے۔ کئی مفتیان عظام سے متعلق تو ان کے چاہنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انسانوں ہی نہیں شجر وحجر پر سحر طاری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میں آواز کا زیرو بم جگانے اور مجمع کو اپنی مٹھی میں بند کرلینے والے شعلہ بیاں مقررین کے نام گنوانا شروع کروں تو ایک کتاب مرتب کی جا سکتی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کئی نام رہ جانے کے سبب کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کی نوبت آ سکتی ہے۔ مذہبی مباحثہ تو کیا مناظرہ ،مجادلہ اور مباہلہ کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ۔تو پھر آخر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو زحمت کیوں دی گئی؟
جب معلوم ہوا کہ حضرت ڈاکٹر ذاکر نائیک تشریف لارہے ہیں تو ملک بھر میں بھونچال آ گیا۔ لبرل اور روشن خیال حضرات نے تو مخالفت کی ہی مگر سب سے زیادہ تنقید مذہبی طبقات کی طرف سے سامنے آئی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک غیر روایتی قسم کے عالم ہیں اور ان کی پاکستان آمدسے مقامی علماء کا کام متاثر ہو گا۔ ان کے تحفظات بالکل بجا اور برحق تھے ۔دیکھئے جب حکومت گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیتی ہے تو مقامی کارساز سرمایہ کار معترض ہوتے ہیں، کسی بھی قسم کی غیر ملکی مصنوعات درآمد کرنے کی صورت میں ردعمل آتا ہے اور مقامی صنعت کو فروغ دینے پر اصرار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اگر بھارتی فلموں کی نمائش شروع ہو جائے تو مقامی ہدایت کار اور فلم ساز احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ بعینہ جب مقامی سطح پر فصاحت و بلاغت کا سیلاب ٹھاٹھیں مار رہا ہے تو ایک غیر ملکی مقرر کو مدعو کرنے کی کیا توجیہہ پیش کی جا سکتی ہے۔ جس طرح پاکستان کے لوگ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متعلق کئی قسم کی خوش فہمیوں، مغالطوں اور مبالغوں کا شکار تھے ،اسی طرح موصوف بھی یہ سوچ کر تشریف لائے تھے کہ پاکستان تو اسلام کا قلعہ ہے اور یہاں کسی بھی قسم کی برائی یا گناہ کا گزر نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ لکی مروت سے تعلق رکھنے والی لڑکی پلوشہ کے سوال کو جھٹک دیا گیا اور پارسائی کے گھمنڈ میں نہایت درشت لہجے میں مطالبہ کیا گیا کہ بی بی! تم ایک اسلامی ملک کے اسلامی معاشرے میں صوم و صلوٰۃ کے پابند صالحین پر بچوں سے جنسی زیادتی کی تہمت لگا رہی ہو، توبہ کرو ،بھری محفل میں سب کے سامنے یہ الزام لگانے پر معافی مانگو اور آئندہ ایسا سوچنا بھی مت ۔شاید ڈاکٹر ذاکر نائیک یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ عہد نبوی میں ریاست مدینہ کا مثالی معاشرہ جسے خود پیغمبر اسلام نے تشکیل دیا ،وہاں بھی گناہوں کا ارتکاب ہوتا تھا اور باقاعدہ سزائیں دی جاتی تھیں ،حدود اللہ کے نفاذ کی روایات بھی موجود ہیں ۔فرق یہ ہے کہ تب گناہوں کا اعتراف کرکے ندامت کا اظہار کیا جاتا تھا اور اب مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ان جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ معصوم بچے مساجد اور مدارس میں محفوظ نہیں ،آئے دن اس طرح کے دلخراش واقعات پر مقدمات درج ہوتے ہیں، ملزموں کو اصحاب جبہ ودستار یہ سوچ کر بچانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائیوں سے اسلام بدنام ہوگا۔ اور پھر بات یہ کہہ کر ختم کردی جاتی ہے کہ کوئٹہ سے کراچی تک جس بھی مدرسے میں بچے کو داخل کروائو گے، نصاب یہی ہوگا۔
تکلف برطرف،جہاں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مداحوں اور چاہنے والوں کو مایوسی کا سامنا ہے وہاں مقامی علماء کے ہاں ان کی مخالفت کم ہونے اور مقبولیت بڑھ جانے کا قوی امکان بھی موجود ہے کیونکہ تحفظات اور اندیشوں کے برعکس ان کی سوچ اور فکر بھی وہی ہے جو یہاں دینی طبقے کے ہاں رائج ہے۔ وہ بیچارے تو اس لئے مخالفت کر رہے تھے کہ شاید یہ ذرا ہٹ کے ہیں ،وسیع المطالعہ مبلغ اور اعلیٰ ظرف واعظ ہیں ،ان کے پاکستان میں جلوہ افروز ہونے سے کہیں ہماری چکا چوند کم نہ پڑ جائے مگر چند دنوں میں ہی اس نوعیت کے تمام مغالطوں اور غلط فہمیوں کا پردہ چاک ہو گیا ۔معلوم ہوا کہ یہ تو ہمارے ہی جیسے ہیں بس انداز و اطوار اور طریقہ واردات مختلف ہے۔ اور معزز مہمان کو بھی بخوبی اِدراک ہوگیا کہ اسلام کا قلعہ باہر سے دیکھنے پر ہی اپنی فصیلوں اور محافظوں کے لشکر جرار سے ہیبت زدہ کرتا ہے ،اندر داخل ہونے کے بعد تاثر بدل جاتا ہے۔ گویا دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں ورنہ کوئی ایسی بات نہیں۔ مطلب یہ کہ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال جو کہا کرتے تھے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ انہوں نے ’’شمع اور شاعر‘‘ میں جس دیرینہ خواہش کا اظہار کیا تھا ،وہ پوری ہو گئی۔ یعنی
آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم ِگل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی