اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے بانیٔ پی ٹی آئی کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے خلاف ڈی چوک پر احتجاج کرنے کے کیس کی سماعت ہوئی۔
وکیل نیاز اللّٰہ نیازی نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے رہنما اور کارکنان کے خلاف سیاسی نوعیت کے کیسز ہیں۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ میرے پاس جو ثبوت آئیں گے ان کے مطابق فیصلہ کروں گا، سیاسی انتقامی کارروائی کی دونوں اطراف سے مذمت کرنی چاہیے، میں سیاسی انتقامی کارروائی کے خلاف ہوں، ملک کے لیے ساتھ بیٹھ کر چلیں، ملک کے بارے میں سوچیں، یقین دلاتا ہوں میری عدالت میں صرف میرٹ پر انصاف ہو گا۔
وکیل علی بخاری نے کہا کہ علیمہ خان اور عظمیٰ خان سے وکلاء 10 منٹ ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔
جس پر جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ 10 کیا 15 منٹ ملاقات کریں، عدالت کے باہر بھی ملاقات کریں۔
پراسیکیوٹر راجہ نوید نے علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے مزید 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر دی۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ علیمہ خان اور عظمیٰ خان کا کیوں ریمانڈ چاہیے؟ کیا ثبوت اکٹھے ہوئے ہیں؟
پراسیکیوٹر راجہ نوید نے کہا کہ علیمہ خان اور عظمیٰ خان نے دیگر کارکنان کو میگا فون پر اشتعال دلایا، انہوں نے کارکنان کے ہمراہ پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا، انہوں نے ویڈیو بنائی، موبائل فون برآمد کرنا اہم ہے، انہوں نے میٹنگ میں احتجاج کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
علیمہ خان نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ آپ کی عدالت میں کئی بار آئی ہوں۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ جی، آپ سائیکل والی درخواست لے کر آئی تھیں، جیل میں دیوار تڑوائی، سائیکل بھی لے کر دی، مجھے تو آپ عمران خان سے زیادہ انرجیٹک لگتی ہیں۔
علیمہ خان نے کہا کہ لاہور میں احتجاج میں شامل ہونا تھا، ٹوٹتی تو صرف دفعہ 144 ہی، جو ہم نے توڑنی تھی۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ یعنی آپ نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا سوچا ہوا تھا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے جملے پر کمرۂ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔