• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رسولِ رحمت ﷺ کو اللہ ربّ العزت نے تمام عالمین کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔ جس طرح سورج اورچاند کی گرمی اور روشنی کا فیض ہر سُو پہنچتا ہے۔ تاہم، اگر کوئی شخص اس عام رحمت سے خود ہی فائدہ اور فیض حاصل نہ کرے تو قصور اس کا ہے، اگر کوئی شخص روشنی اور دُھوپ کے تمام راستے بند کرلے اور اُن کے فیض سے خود کو محروم کرلے، تو یہ اُس کی نادانی اور حماقت ہی ہوگی۔ رسول رحمت ﷺ کے فیض اور معرفت کا حلقہ اس قدر وسیع ہے کہ اگر کوئی بدقسمت اُس سے محروم ہونا بھی چاہے، تو اُس بے اختیار رحمت کا فیضان اس تک پہنچ ہی جاتا ہے۔

غزوئہ اُحد میں مسلمانوں کے ایک ہزار کے لشکر میں عین میدانِ جنگ سے منافقین کا سردار عبداللہ بن اُبی بن سلول تین سو لوگوں کو بہکا کر واپس لے گیا۔ عین میدانِ کارزار میں دھوکا دینا، اس سے بڑا اور کیا جرم ہوسکتا ہے، لیکن پھر بھی رسول رحمت ﷺ نے اُسے کسی قسم کی سزا نہیں دی، مگر دین سے محرومی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نافرمانی کے سبب آخرت کا عذاب بہرحال، اس کا مقدر ٹھہرا۔ دنیا میں علومِ نبوت کے سرچشموں، تہذیب و تمدّن اور انسانیت و شرافت کے اصولوں کی عام اشاعت سے ہر شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ 

یہ اُسی چشمہ فیض عام کا اثر ہے، جس سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا، ایسا بھی ہوا کہ لوگ اس نور سے بھاگے، مگر چوں کہ ہدایت ان کے لیے مقدر کردی گئی تھی، ایمان کی روشنی رسولِ رحمتﷺ کے فیضان سے اُن کے قلوب تک پہنچ گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کو پورے عالم کے لیے رحمت اور ہدایت کا سرچشمہ بناکر بھیجا گیا۔ 

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا۔ ترجمہ:’’اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔‘‘اسی بات کو احادیثِ نبوی ﷺ میں متعدد مواقع پر اس طرح بیان کیا گیا ہے، آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ عزّوجل نے مجھے پورے عالم کے انسانوں کے لیے ہدایت اور رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ رسولِ رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’بے شک، اللہ عزّوجل نے مجھے تمام عالم کے لیے رحمت اور سارے عالم کے لیے ہدایت بنا کر مبعوث فرمایا۔‘‘

پھر رسولِ رحمتؐ کو اللہ عزّوجل نے انتہائی نرم خُو اور نرم دل بنایا، اپنوں اور غیروں سب کے لیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرﷺ کے ذریعے ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کروانا تھی۔ اسی تقاضے کے تحت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپؐ کو نہایت بلند اخلاق، انسانی مزاج اور طبیعتوں کے لیے پُرکشش اور لائقِ توجّہ بنایا۔ آپ ﷺ کے بڑے سے بڑے دشمن بغض و عناد اور عداوت و دشمنی کی آگ میں جلنے اور سلگنے والے، جوں ہی آپ کی محفل میں آکر بیٹھتے، تو اُن کے دل کی کایا پلٹ جاتی اور دِلوں میں بھڑکتی، سلگتی آگ محبّت کے آنسوئوں اور دل رُبا اخلاقِ عالیہ سے ماند پڑجاتی۔ 

یہ اللہ ربّ العزّت نے اُس اُمّت پر کرم کیا کہ اُسے آپ جیسا شفیق، نرم دل پیغمبر عطا فرمایا۔ اگر خدانخواستہ آپ سخت مزاج، تُند خُو ہوتے، آپ کے مزاج میں شدّت ہوتی، تو یہ قوم آپؐ کے گرد کیسے جمع ہوسکتی تھی۔ اگر افراد کسی لغزش یا غلطی کے مرتکب ہوجاتے اور آپ ﷺ سختی سے اُن پر گرفت کرتے، تو لوگ دہشت کے مارے قریب ہی نہ آپاتے۔ اس طرح لوگ بڑی خیر و فلاح اور سعادت سے محروم رہ جاتے اور ایسا فلاحی انسانی معاشرہ، جس کی تشکیل اللہ تعالیٰ زمین پر اپنے نیک بندوں کے لیےدیکھنا چاہتا تھا، تشکیل نہ پاتا، لیکن اللہ عزّو جل نے اپنے حبیب ﷺ کو ایسی رقیق القلب اور نرم مزاج شخصیت کے روپ میں ڈھالا کہ آپ ﷺ اپنے رفقاء کی اصلاح فرماتے، اُنھیں تعلیم دیتے، اُن کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرماتے اور مسلسل اُن کی دل جوئی، دل بستگی اور تسلّی و اطمینان کی بات کرتے، اُن سے عفوو درگزر کا معاملہ فرماتے۔ 

قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے اس مضمون کو نہایت خُوب صُورتی کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ ترجمہ:’’پس، اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپؐ اُن کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُند خُو اور سخت دل ہوتے، تو لوگ آپ ؐ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔ سو، آپ ؐ اُن سے درگزر فرمایا کریں اور اُن کے لیے بخشش مانگا کریں اور کاموں میں اُن سے مشورہ کیا کریں اور پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں، تو اللہ پر بھروسا کیا کریں، بے شک، اللہ توکّل کرنے والوں سے محبّت کرتا ہے۔‘‘

اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو رحمت کا سرچشمہ، عفوو درگزر، تحمّل و برداشت اور شفقت و رحمت کا بحرِبے کراں بنا کر بھیجا۔ نبی کریم ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم فرمائی۔ ریاستِ مدینہ میں عفوو درگزر کے ایسے اعلیٰ نمونے اور مثالیں پیش کیں کہ تاریخِ انسانی ان کی نظیر پیش کرنےسے قاصر ہے۔ وہ لوگ، جنہوں نے نعوذباللہ، آپؐ کے قتل کو اپنے لیے سعادت اور آپ ﷺ کو راہ سے ہٹادینے کو ترقی کا زینہ سمجھا، اورپھر ہجرت کے بعد جب اللہ عزّوجل نے آپ ﷺ کو فتوحات کا شرف عطا فرمایا، تو آپﷺ نے باوجود قدرت اور بدلے کا حق رکھنے کے، انھیں معاف فرمادیا۔ 

حتیٰ کہ نہ انھیں اُن کے جورو ستم یاد دلائے کہ گویا آپﷺ اور اُن کے درمیان کوئی بات ہی نہ ہوئی تھی، کوئی معاملہ ہی پیش نہ آیا تھا، بلکہ معاف فرمانے کے ساتھ ساتھ اُن کے ساتھ ایسا معاملہ اور برتائو فرمایا کہ دنیا محوِ حیرت تھی۔ جو لوگ پہلے ہی آپ ﷺ کے غم خوار، جاں نثار اور آپ ﷺ کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے تھے، ان سے بھی زیادہ اچھا اور عمدہ معاملہ آپ اپنے دشمنوں کے ساتھ فرماتے، جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپؐ کے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کرلیتے۔ چشمِ دنیا نے ریاستِ مدینہ میں ایسے بے شمار واقعات کا نظارہ کیا کہ دشمنوں کی عداوت دوستی میں بدل گئی۔

جب اللہ ربّ العزّت نے فتحِ مکّہ کے موقعے پر آپﷺ کو دشمنوں پر غلبہ عطا فرمایا، ایسے دشمن، جنہوں نے کبھی ایذا رسانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا تھا، آپ ﷺ نے ان تمام دشمنوں کو بھی عام معافی اور پناہ دینے کا اعلان فرمایا۔ یہ رحمۃ لّلعالمینؐ کی ذاتِ بابرکات ہی تھی کہ جس کے عفو و درگزر اور رحمت و شفقت کا سمندر دوستوں دشمن، اپنے اور غیر سب کے ساتھ مساوات کےساتھ ہی بہتا رہا۔

اس دن نہ کوئی بدلہ تھا اور نہ ہی کوئی انتقام۔ ہر طرف مہربانی، ہم دردی، عفو و درگزر، محبّت ہی محبّت، حتیٰ کہ عکرمہ ابنِ ابی جہل، عبداللہ بن ابی سرح اور صفوان ابنِ امیّہ جیسےبدترین دشمن، جن کے لیے اعلانِ عام تھا کہ حدودِ حرم کے اندر یا باہر جہاں کہیں مل جائیں، قتل کردیئے جائیں، انھیں بھی معاف فرمادیا۔ یہی رحمۃ لّلعالمینؐ کی شانِ رحمت و شفقت تھی، جس کا نظارہ مدینے کی اسلامی ریاست میں عام نظر آتا۔

آپﷺ کے دَور یا پچھلے ادَوار میں کسی حاکم یا بادشاہِ وقت کے خلاف سازش کرنے، اسےنقصان پہنچانے یا خدانخواستہ قتل کرنے کا ارادہ کرنے کی کیا سزا ہوسکتی تھی، اس کا اِدراک ہم سب کو ہے، لیکن ریاستِ مدینہ کے والیؐ، حضرت محمدﷺکے عفوودرگزر کا اندازہ کیجیے، جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپؐ کے دستِ حق پرست سے خیبر فتح فرمایا، تو خیبر والوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ ’’ہمیں کاشت کاری کا وسیع تجربہ ہے، آپ ﷺ ہمیں یہاں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیں،ہم کھیتی باڑی میں محنت کریں گے اور پیداوار کا آدھا حصّہ آپ کو دیں گے۔‘‘ تو آپ ﷺ نے فوری طور پر انھیں خیبر سے جلاوطن نہیں فرمایا، انھیں وہیں رہنے دیا۔ اور خیبر کی زمین بٹائی کے طور پر ان کے حوالے کردی۔

بہرحال، جب یہودیوں نے دیکھا کہ رسولِ کریمﷺ اور آپ ؐ کے صحابہ کرامؓ یہودیوں کی طرف سے مطمئن ہوگئے ہیں اور جلد ہی واپس مدینے کے لیے رختِ سفر باندھنے والے ہیں، تو انہوں نے سازش و مکر و فریب کی یہ چال چلی کہ آپ کے پاس تحائف بھیجنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ چناں چہ ایک یہودیہ زینب بنتِ حارث کو،جو سلام بن مشکم کی بیوی تھی، تیار کیا کہ ایک بکری زہر میں بھون کر آپؐ کے پاس بطور تحفہ بھیج دے۔ 

چناں چہ اس نے زہر میں بھنی ہوئی بکری آپؐ کے پاس بطور تحفہ بھیجی۔ آپؐ اور آپؐ کے بعض صحابہ ؓ نے اس میں سے ایک ایک لقمہ کھا بھی لیااور زہر کے اثرسے حضرت براء بن معرورؓشہید بھی ہوگئے۔جب کہ نبی کریم ﷺ کے اوپر کا تالو زہر سے اتنا متاثر ہوا کہ آپؐ کے وصال تک اس کا اثر رہا ۔ بہ وقتِ وصال جسم میں اس زہر کا اثر پھیل گیا تھا۔ جب یہودیہ سے اس سے متعلق پوچھ گچھ کی گئی، تو اس نے اِس کا اقرار بھی کرلیا، لیکن رسولِ کریمﷺ نے اس سے کوئی بدلہ نہیں لیا، بلکہ معاف فرمادیا۔

اس ضمن میں ’’حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت نے آپؐ کی خدمت میں زہر آلود بھنی ہوئی بکری لاکر پیش کی، تو آپؐ نے اس میں سے کچھ تناول فرمالی۔ پھر اس یہودیہ کو، آپؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ اسے قتل کرنے کا حکم صادر فرمائیے، مگرآپؐ نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کیا جائے۔‘‘حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ’’آپؐ کے وصال تک آپؐ کے تالو میں زہر کا اثر باقی تھا۔‘‘ رسول اللہﷺ کے بدترین دشمنوں میں حضور ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی، عبداللہ بن امیہ بھی شامل تھے،جن کے دل میں بغض و عناد کُوٹ کُوٹ کر بَھرا ہوا تھا۔ 

یہاں تک کہ ایک بار رسولﷺ کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ’’ اگر آسمان سے زمین تک ایک زینہ اور سیڑھی قائم ہوجائے، آپؐ اس پر سے آسمانوں پر چڑھ جائیں، پھر آپؐ وہاں سے نبوّت و رسالت کی دستاویزات لے کر اُتریں، مَیں آپؐ کے ساتھ ملائکہ کو اُترتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھوں اور چار فرشتے آکر میرے سامنےآپؐ کی رسالت کی دستاویز رکھ دیں، تب بھی مَیں آپؐ پر ایمان نہیں لاسکتا۔‘‘ اِس سے ذہنیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کے دل و دماغ میں نبئ رحمتﷺ کے لیے کس قدر بغض و عداوت بھری ہوئی تھی۔بہرکیف، اتنے بڑے دشمن نے جب فتحِ مکّہ کے سفر میں مکّہ مکرمہ سے پیش قدمی کرکے راستے میں اسلام لانے کی خواہش ظاہر کی، تو آپؐ نے پچھلی ساری باتوں کا تذکرہ تک نہیں کیا اور بغیر کچھ یاد دلائے اُن کی ہر و خطا ، غلطی معاف فرمادی۔

یہ پیغمبر ِرحمتﷺ ہی کی شان عالی تھی کہ آپ ﷺ جو ایک عظیم قائد، ایک عظیم رہنما و رہبر اور مصلح اعظم تھے۔ نبی کریمﷺ کے حقیقی چچا زاد بھائی، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب، نبی کریم ﷺ کے رضاعی بھائی اورمکّے کے معروف ترین شاعر تھے۔ وہ بھی نبی کریم ﷺ کے بدترین دشمن تھے، نت نئے انداز سے آپؐ کی شان میں گستاخانہ اور طنزیہ اشعار کہتے اور آپؐ کی شان میں ہجو کرنے میں بڑا فخر محسوس کرتے۔ اُن کی وجہ سے آپؐ کو جو ذہنی کوفت ہوتی، وہ بیان سے باہر ہے۔ 

آپؐ نے اس اذیت و تکلیف ہی کی وجہ سے فتح ِمکّہ کے سفر میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں یہ اعلان فرمادیا تھا کہ ’’ابوسفیان بن حارث کسی کو بھی ملے، فوراً قتل کردیا جائے۔‘‘ لیکن فتح مکّہ کے موقعے پر انھوں نے بھی عبداللہ بن امیّہ کی طرح اسلام لانے کی خواہش ظاہر کی۔ جب آپؐ کو یہ معلوم ہوا کہ ابوسفیان اور عبداللہ ابن امیّہ یہاں آچکے ہیں، تو آپؐ کو دونوں کی ایذا رسانی یاد آگئی، مگرجب اُن دونوں نے اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی، تو آپؐ نے پچھلی تمام تکالیف اور اُن کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں کو بُھلادیا بلکہ نبی کریم ﷺ کا ابرِرحمت ایسا جوش میں آیا کہ آپؐ نے اپنے سب بدترین دشمنوں کومعاف فرمادیا۔ 

دراصل آپؐ نے اپنے اُس ارشاد پر عمل پیرا ہوکر دکھایا، جو آپؐ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓاور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کے دو مختلف علاقوں کے گورنر بنا کر روانہ کرتے وقت بطور نصیحت و وصیت ارشاد فرمائے تھے کہ ’’تم جس قوم کے پاس جارہے ہو، اُن کے ساتھ نہایت نرمی اور شفقت کا معاملہ رکھنا۔ اُن کے ساتھ تنگی و سختی کا معاملہ نہ کرنا، اُنھیں خیر و بھلائی کی بشارت اور خوش خبری دیتے رہنا اور ان کے درمیان نفرت کا ماحول پیدا نہ کرنا۔ دونوں آپس میں کسی معاملے کو فیصلے کی حد تک پہنچانے میں ایک دوسرے کی موافقت کرتے رہنا۔ اور کبھی اختلاف نہ کرنا۔‘‘ درحقیقت، یہ نصیحت اُن دونوں کے لیے نہ تھی، بلکہ پوری اُمّت کے لیے تھی۔

صحیح بخاری میں ایک حدیث سات مقامات پر مذکور ہے۔ یہاں اس کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے۔لبیدبن اعصم نے نبی کریم ﷺ پر ایسے خطرناک انداز میں جادو کیا تھا، جس سے بچ نکلنا آسان نہ تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و کرم فرمایا اور وحی کے ذریعے آپؐ کو بتادیا۔ لبید بن اعصم، جو یہودیوں کا حلیف اور منافق تھا، اُسے یہودیوں نے دولت، انعام و اکرام سے نواز کر حضوراکرم ﷺ پر جادو کےلیے آمادہ کیا۔ اور اس نے کھجور کے باغ میں ایک ایسے کنویں میں جادو کی چیزیں ڈال دیں کہ جس میں سانپ، بچّھو اور دیگر حشرات الارض کے علاوہ کسی کی آمد و رفت نہ تھی۔ اس جادو کا اثر آپؐ پر اس قدر تھا کہ آپؐ کو اپنا کیا ہوا کام یاد نہ رہتا۔ اللہ عزّو جل نے اپنے فضل و کرم سے آپؐ کو اس جادو سے نجات دلائی۔ اور پھرلبید بن اعصم جب پکڑا گیا، تو مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ سے گزارش کی کہ اسے ضرور قتل کردیا جائے، کیوں کہ یہ شخص ہمیشہ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ اپنے جادو کے اثر سے نہ جانے کتنوں کو نقصان پہنچاتا رہا ہے اور آئندہ بھی پہنچائے گا، لیکن نبی کریم ﷺ نے اُس سے بدلہ نہیں لیا، بلکہ معاف فرمادیا۔ گرچہ پیغامِ خداوندی کی راہ میں اگر سختیاں، تکلیفیں پہنچائی جائیں، تو قدرت حاصل ہونے کے بعد اجازت ہے کہ بدلہ لے لیا جائے، لیکن مقام ِصبر اس سے بلند تر ہے۔ مگر مظالم اور تکالیف و شدائد پر صبر کرنابھی کوئی سہل کام نہیں۔ نصرت ِخدا وندی شامل ہو، تب ہی ہوسکتا ہے کہ بندہ ظلم سہتا رہے اور اُف تک نہ کرے۔بہرکیف، نبی کریم ﷺ نے جس معاشرے کی تشکیل فرمائی اور جس ریاست کی بنیاد رکھی، وہاں آپ نے اپنوں اور بیگانوں کوکیا کیا اسباق دے کر اُن کی شخصیت سازی نہیں کی۔ 

دیکھیے، قرآن ِکریم اس ضمن میں کیا تعلیم دے رہا ہے۔ ترجمہ:’’اور اگربدلہ لو، تو اس قدر لو،جس قدر تمہیں تکلیف پہنچائی جائے اور اگر تم صبر کروگے، تو یہی صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے۔ اور آپ اتنا صبر کیجیے، جتنا اللہ کی مدد سے آپ سے ہوسکے۔ اور آپ اُن پر غم نہ کریں۔ اور ان کے مکرو فریب سے تنگی محسوس نہ کریں۔ بے شک، اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے، جو تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ ہے، جونیکی کرتے ہیں ۔ ‘‘