• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزن کم کرنے کیلئے کھانے کی مقدار نہیں معیار اہم

---- فائل فوٹو
---- فائل فوٹو

اکثر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ وزن کم کرنے کے لیے کیلوریز کم کرنی پڑیں گی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے کی مقدار نہیں بلکہ معیار اہمیت رکھتا ہے۔

ایک مطالعے کے مطابق وہ لوگ جو بہت زیادہ پروسیسڈ فوڈز، میٹھی غذائیں اور ریفائنڈ دالوں سے بنی اشیاء کا استعمال کم اور بھرپور مقدار میں تازہ سبزیاں، پھل اور خالص دالوں کو اپنے معمول کا حصہ بناتے ہیں وہ صرف ایک سال کے عرصے میں اپنا کافی وزن گھٹا سکتے ہیں۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس بات کی اہمیت ہے کہ آپ کیا کھاتے ہیں، نہ کہ یہ کہ آپ کتنا زیادہ یا کم کھاتے ہیں، یہی چیز آپ کی صحت کو بناتی یا بگاڑتی ہے۔

مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ معیاری غذاؤں پر مبنی خوراک کھانے کی حکمتِ عملی ان لوگوں کے زیادہ کام آئی جو کم چکنائی اور نشاستے والی ڈائٹ پر عمل کرتے تھے۔

یہ بھی پتہ چلا ہے کہ موروثی طور پر فربہ لوگ اور انسولین استعمال کرنے والے یعنی ذیابطیس کے مریضوں پر اس قسم کی ڈائٹ کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا اور ان کے وزن میں کمی نہیں دیکھی گئی۔

تحقیق نے اس بات کو تقویت دی ہے کہ وہ لوگ جو معیاری ڈائٹ پر عمل کرتے ہیں، ان کا وزن صحت بخش ہوتا ہے اور ان پر بوجھ بھی نہیں ہوتا، وہ اس کے ساتھ کافی عرصے خوش باش زندگی گزارتے ہیں۔

وہ لوگ جو صاف ستھری اور صحت بخش غذاؤں کو ترجیح دیتے ہیں، ساتھ ہی پروسیسڈ اور ریفائنڈ فوڈز جیسے کہ ڈبل روٹی، چھنا ہوا سفید آٹا، سوڈا، سوفٹ ڈرنکس اور میٹھے اسنیکس سے پرہیز کرتے ہیں، وہ ایک صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔

یہ مطالعہ اسٹینفورڈ یونیورسٹی میڈیکل اسکول کے سائنسدانوں کے ذریعے کلینیکل ٹرائل کے تحت 1 سال تک جاری رہا، جس میں 18 سے 50 سال کے 609 افراد نے حصہ لیا، ان میں سے کوئی بھی ذیابطیس کا مریض نہیں تھا۔

ان کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) 28 سے 40 کے درمیان تھا۔ اس مطالعے میں ڈی این اے کا بھی تجزیہ کیا گیا تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ موروثی تغیرات جسم کے اندر فیٹس اور کاربوہائیڈریٹس (یعنی چکنائی اور نشاستے) کے پروسیس پر کس قدر اثر انداز ہوتے ہیں۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ باڈی ماس انڈیکس کی رینج 18.5 سے 24.9 ہو تو اسے صحت مند تصور کیا جاتا ہے۔

ان تمام لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا، ایک گروہ کو کم نشاستے والی اور دوسرے گروہ کو کم چکنائی والی ڈائٹ اختیار کرنے کو کہا گیا۔ 

دونوں گروہوں سے تقاضہ کیا گیا کہ وہ صرف صحت بخش غذاؤں پر دھیان دیں اور کیلوریز کی فکر نہ کریں، کم چکنائی والےگروہ (Low-fat group) کی وہ غذائیں کھانے کی حوصلہ شکنی کی گئی جس پر low-fat لکھا تھا، بغیر کیلوریز (No calorie)والی غذائیں اس گروہ کا ہدف تھیں جنہیں یہ کہا گیا کہ وہ جتنا چاہیں صحت بخش غذائیں کھا سکتے ہیں۔

ایک سال بعد یہ نوٹ کیا گیا کہ وہ گروہ جو کم نشاستہ یا کاربوہائیڈریٹس استعمال کر رہا تھا ، اس کا اوسط وزن 5 سے 6 کلو کم ہوا اور دوسرا گروہ جو کم چکنائی استعمال کر رہا تھا اس کا وزن 4 سے 5 کلو کم ہوا۔

سب سے اہم بات یہ تھی کہ دونوں گروہوں میں موجود لوگوں کی کمر کا سائز بھی کم ہوا، انہوں نے بلڈپریشر، باڈی فیٹ اور بلڈ شوگر لیول کو بھی برقرار رکھا تھا۔

اس مطالعے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ شرکاء جو موروثی طور پر فربہ تھے ان پر کسی قسم کی ڈائٹ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

صحت سے مزید