میٹرک کے امتحانوں کے بعد چھٹیوں میں لاہور سے کراچی کا سفر بہ ذریعہ ریل گاڑی درپیش تھا۔ ڈبے میں ایک بزرگ پٹھان اور اس کا بیٹا بھی سفر کر رہے تھے، بزرگ پٹھان کی سفید داڑھی بالشت بھر رہی ہو گی، اور بیٹا داڑھی منڈا تھا، کچھ ہی دیر گزری تو بزرگ پٹھان نے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے بیٹے سے کچھ سرگوشی کی، مجھے لگا کہ وہ میرے بارے بات کر رہے ہیں، اسی دوران بزرگ نے مسکراتے ہوئے مجھے مخاطب کیا، اور کچھ دیر بولنے کے بعد جب توقف فرمایا تو میں نے معذرت کی کہ مجھے پشتو نہیں آتی، انہوں نے میری بات ان سنی کرتے ہوئے پشتو میں مزید دو چار فقرے بولے اور پھر بزرگ پٹھان نے میرے چہرے پر تُھوک دیا۔انہوں نے میرے چہرے پر کیوں تُھوکا؟ میں بالکل نہیں سمجھ پایا۔حیرت کے گرداب سے نکلا تو میں نے دیکھا کہ بزرگ قطعاً حالتِ اشتعال میں نہیں تھے، بلکہ اچھا خاصا مسکرا رہے تھے۔ آخرِ کار ان کے بیٹے نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں یہ گتھی سلجھانا شروع کی۔ اُس نے بتایا کہ اُس کے باپ کی عمر اسّی سال ہے، اسے پشتو کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی، اور آج وہ پہلی دفعہ اپنے گائوں سے باہر نکلا ہے۔ میں نے استفسار کیا کہ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر آپ کے والدِ بزرگ وار نے لعاب کاری کے لیے میرے ہی چہرے کا انتخاب کیوں کیا۔ تو نوجوان نے مزید مسکراتے ہوئے ارشادفرمایا کہ میرے والد نے پہلے تمہاری روشن پیشانی اور وجاہت کو سراہا، اور پھر نظرِ بد سے بچانے کیلئے ہمارے رواج کے مطابق تھوک باری کی رسم ادا کی۔ سفر چشم کُشا ہوا کرتا ہے، نِت نئے لوگ ملتے ہیں، طرح طرح کی زبانیں سماعت سے ٹکراتی ہیں، رنگ بہ رنگ عقائد سے واسطہ پڑتا ہے، نوع بہ نوع رسوم و رواج، مختلف معاشرتی قدریں، حُسن و خوبی کے بوقلموں استعارے، مہربان اجنبی، اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ سفر انسان کو وسیع المشرب بناتا ہے، رویوں میں لچک پیدا کرتا ہے، کسی بھی معاملے کی قطعیت کے آگے سوالیہ نشان لگاتا ہے، داخلِ دفتر امور کو جھاڑ پونچھ کر پھر سے میز پر سجا دیتا ہے۔ بلا شبہ، سفر دل و دماغ کے دریچے کھول دیتا ہے۔ اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو دنیا میں سیاحوں کی اکثریت سب سے زیادہ اپنے ہمسایہ ممالک کا سفر اختیار کرتی ہے، ایک توجغرافیائی قربت کے باعث یہ سیاحت نسبتاً سستی پڑتی ہے ، اور پھر پچھلی صدی میں بہت سے ممالک کی تقسیم کچھ اس طرح سے ہوئی کہ نسلی و لسانی اکائیاں بھی منقسم ہو کر رہ گئیں۔ اب ذرا پاکستان کے چاروں طرف نظر دوڑائیں، جائیں تو جائیں کہاں والا منظر آپ کو گھورتا محسوس ہو گا۔ ستّر کی دہائی کے وسط تک پاکستانی سیاحت کے لیے افغانستان جایا کرتے تھے، کوئی شوقِ مسکرات میں، کوئی کابل میوزک فیسٹیول میں خطے کے نام ور مغنیوں کو داد دینے، کوئی کاروبار کی غرض سے، اور کوئی افغانستان کے راستے سرخ سلام کرنے لینن نگر کا رخ کیا کرتا تھا۔ یہ سلسلہِ سیاحت لگ بھگ نصف صدی سے بند ہو چکا ہے۔ مدت ہوئی پاک افغان سرحد صرفِ جہاد ہو چکی، پہلے مجاہد آتے جاتے تھے، اب خوارج آتے جاتے ہیں، بندوقیں شعلے اگلتی ہیں، بارود کی بو فضا میں رچی ہوئی ہے، تزویراتی گہرائی کی حرص میں سیاحتی گہرائی بھی گنوا دی، نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔
مشرق میں تو خیر ہمارا ’’ازلی دشمن‘‘ بستا ہے، جہاں آنا جانا انتہائی دقت طلب مراحل سے پُر ہے۔ نارمل ملکوں کی طرح اپنی گاڑی پر سرحد پار آنا جانا ان ملکوں کے عوام کو نصیب ہی نہیں ہوا۔ کبھی کبھی نسبتاً بہتر حالات بھی آتے جاتے رہے، مگر مدت ہوئی یہ سب قصہء ماضی بن چکا ہے۔ بلاشبہ، بھارت کی سیاحت ہم پاکستانیوں کے لیے ایک منفرد تجربہ ہے، ایک زبان، ایک تاریخ، بہت سی چیزیں یک ساں، بہت سی باتیں یک سر مختلف ، ایک گنگا جمنی کیفیت کا سامنا رہتا ہے۔ مگر یہ باب بھی کب کا بند ہو چکا۔ پاک چین دوستی زندہ باد، مگر چین آنا جانا بھی کارِ دارد ہے، کبھی نہیں سنا کہ کوئی دوست سیاحت کی غرض سے اپنے بیوی بچوں سمیت چینی سرحد پار گیا ہو۔ بائے روڈ ایران جانا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ’محصور‘ ملک ہو۔ اب اگر کسی نے سیاحت پر نکلنا ہے تو ہوائی جہاز پر نکلے۔ اس میں بھی ایک مسئلہ ہے۔ کسی قریب ترین ملک جانے کا فی فرد ہوائی کرایہ بھی اب ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ کس میں یارا ہے اس ’عیاشی‘ کا۔ پاکستان کی اکثریت سفر کی استطاعت سے محروم ہو چکی ہے، اور باقی دنیا تو ویسے ہی ہمیں ویزا دیتے ہوئے ہزار بار سوچتی ہے، ہم جوہڑ بنتے جاتے ہیں، مینڈکوں کی طرح ٹراتے ہیں، سروں پر آہنی خود پہنے ہوئے، تنگ نظری اور انتہا پسندی کے خود ، یہ کنبہ اپنے سب ہمسایوں سے لڑنے کے بعد اب آپس میں دست و گریباں ہے، اپنے بوجھ تلے دبا ہوا، کراہتا ہوا ۔
آج کا موضوع تو ایس سی او کانفرنس سوچا گیا تھا مگر خیالات کی رو کہیں سے کہیں سفر کر گئی۔ مختصراً کہنا یہ چاہتا تھا کہ ہمیں پاکستان کو ’’ناقابلِ تسخیر‘‘ بنانے یا ’’اسلام کا قلعہ‘‘ بنانے سے پہلے اپنی تمام تر توانائیاں اس ملک کو ایک ’’نارمل‘‘ ریاست بنانے پر صرف کرنا ہونگی، جسکے اپنے ہمسایوں سے نارمل تعلقات ہوں،نارمل سرحدیں ہوں، نارمل کاروباری رشتے ہوں، نارمل ثقافتی تبادلے ہوں، نارمل علمی و سائنسی تعاون ہو، نارمل سیاحتی تعلقات ہوں۔ لیکن اس سب سے پہلے ریاست کو اپنے شہریوں سے نارمل تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ یہ راستہ طویل سہی مگر....چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر!