ناز قادری
قصہ گوئی سے انسان کی دلچسپی ایک جبلی تقاضا ہے۔ کوئی قوم و جماعت اور عہد و تہذیب ایسی نہیں جس میں کسی نہ کسی شکل میں قصہ گوئی کا سراغ نہ ملتا ہو۔ انسان جیسے جیسے تہذیب و تمدن سے ہم کنار ہوا اور عروج و ارتقا کی منزلیں طے کرتا رہا، ویسے ویسے قصہ کہانی کا انداز اور معیار بدلتا گیا۔ ابتدا میں یہ قصے کہانیاں زبانی کہی اورسنی جاتی تھیں لیکن تعلیم و ہنر سے تحریر میں آنے لگیں۔
کہا جاتا ہے کہ کہانیوں کا وجود اُس وقت سے ہے جب سے انسان نے سماجی زندگی بسر کرنا شروع کی یا شاید اتناہی کہنا کافی ہو کہ کہانیاں اس وقت سے پائی جاتی ہیں جب سے انسان ہے ،کیوں کہ انسان کا تصور سماجی زندگی کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کہانیوں کی پیدائش اور ارتقا کی حیثیت سماجی ہے۔ کہانیوں کے سلسلے میں کہانی کہنے، سننے، لکھنے اور پڑھنے والے کا وجود لازمی ہے۔ یہ بات اس کی سماجی حیثیت کو متعین کرتی ہے۔
انسان کی ابتدا سے لے کر ارتقا تک افسانہ وافسوں کا سلسلہ پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ فلسفیانہ نقطہ نظر ہو کہ مذہبی انداز فکر یا سائنسی زاویہ نگاہ سب کے سب اس کائنات میں انسان کی ابتدا کے متعلق کچھ ایسے ہی نظریات پیش کرتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح قصہ کے زمرہ میں آتے ہیں۔ جب سے انسانی سماج کا سراغ ملتا ہے، تب سے قصوں اور کہانیوں کے وجود کا پتہ بھی چلتا ہے۔ عمرانیات کے محققین و ماہرین اس نظریہ پر متفق ہیں۔ نفسیاتی تحلیل و تجزیہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسانی ذہن قصے اور کہانیوں سے دلچسپی لینے میں فطری طور پر مجبور ہیں۔
قصے کہانی کی بنیا د حیرت، خوف، مسرت اور کشمکش پر ہوتی ہے اور یہ ساری کیفیات ذہن انسانی سے وابستہ ہیں یعنی انسان کے نفسیاتی عوامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب قصہ گوئی انسانی زندگی سے اتنے گہرے طور پر ہم آہنگ ہے تو کسی بھی سماج میں خواہ وہ پتھر کے عہد کا سماج ہی کیوں نہ ہو، اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ اس نظریہ کو کائناتی صداقت حاصل ہے، اسی لیے کہا گیا کہ قصہ اور کہانی انسانی جبلت کی ضرورت اور تکمیل ہے۔ ادب اور زندگی کے روابط و تعلقات پر خاصی بحشیں ہو چکی ہیں۔ دنیا کی بڑی زبان اور بڑے ادب کے تخلیقی اور تنقیدی ماہرین نے ادب اور زندگی کو ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم قرار دیا ہے۔
انہوں نے اس رائے سے بھی اتفاق کیا ہے کہ ہر ادب اپنے زمانے کی تہذیبی و ثقافتی، معاشی واقتصادی، سیاسی اور سماجی زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور نقاد بھی ۔ ادب، زندگی سے جتنا بھی آفاقی طور پر وابستہ ہو اس کی سب سے صحیح تعریف یہی ہے کہ یہ جمالیاتی سطح پر زندگی کی تنقید پیش کرتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ زندگی ارتقا کا ایک سلسلہ ہے، بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ تہذیبی اقدار و معیار بدل جاتے ہیں اور زندگی کے ساتھ ساتھ ادب بھی ارتقا کی راہ پر گامزن ہے۔
ظاہر ہے کہ جمالیاتی تصورات و نظریات بھی ارتقائی عمل اور ردعمل سے گزرتے ہیں، جس عہد کی سماجی زندگی جیسی ہوگی اسی مناسبت سے اس عہد کے جمالیاتی تصورات و نظریات ہوں گے اور اسی طرح کی فنی تخلیقات بھی معرض وجود میں آئیں گی۔ اردوزبان وادب کے ہر دور میں قصہ کہانیوں میں دلچسپی لی جاتی رہی ہے۔ ناول نگاری سے بہت پہلے اردو زبان میں قصہ اور کہانی کی ادبی ہیئتیں موجود ہیں، جن میں مقبول ترین صنف نثر میں داستان اور نظم میں داستانی مثنویاں ہیں۔
داستانوں کے علاوہ تمثیل، ڈرامے اور چھوٹے چھوٹے مذہبی قصے بھی ناول سے قبل ملتے ہیں لیکن ناول سے پہلے، جس صنف ادب نے اُس عہد کی سماجی زندگی کو کہانی اور قصہ گوئی کے دائروں میں اسیر کیا وہ داستان ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ناول، داستان کی ارتقائی صورت ہے تو شاید غلط نہ ہو، اس لیے کہ داستان اور ناول کے فنی تقاضوں میں بڑی مماثلت ملتی ہے۔ بعض نقاد فن تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ملا وجہی کی داستان ’’سب رس‘‘ میں بھی ناول کا انداز ملتا ہے۔
عصر حاضر کے ناقدین ادب نے داستان کی صنفی حیثیت میں بہت سی خامیاں تلاش کیں لیکن یہ حضرات اس حقیقت کو فراموش کر گئے کہ ادب صرف معنوی طور پر زندگی سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ ہیئتی سطح پر بھی زندگی سے متعلق ہوتا ہے یعنی سماجی نظام کی نوعیت صنف کی ہیئت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہر تکنیک اپنی تھیم کے اعتبار سے کروٹیں بدلتی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت داستانی عہد کے سماجی نظام اور فن داستان کی خصوصیت کو سامنے رکھ کر پیش کیا جاسکتا ہے۔
تمام داستان نگاروں میں میرا من کو سالار قافلہ کی حیثیت حاصل تھی ۔ میر امن کی داستان ’’باغ و بہار‘‘ جس کا سال تصنیف 2 - 1810 عیسوی ہے، اردو میں داستانوں کی سب سے اہم نمائندہ ہے اور داستان کے فنی تقاضوں پر بڑی حد تک مکمل اُترتی ہے۔ اس عہد میں داستانوں کے فنی اصول و اقدار کی تنظیم تعیین ہو چکی تھی ۔ داستان گوئی کے فنی تقاضوں میں قصہ گوئی، دلچسپی کا عنصر، واقعہ طرازی، کردار سازی، فضا بندی، جذبات نگاری، منظر کشی، مکالمہ اسلوب اور پلاٹ کو اہمیت دی جاتی ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ ناول میں زمان و مکان کو ایک فنی قدر کی حیثیت حاصل ہے، مگر داستان کے فنی تقاضوں میں اس کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ بعض ناقدین نے عذر لنگ کا سہارا لیا ہے لیکن اس رائے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ، داستان میں زمان و مکان کو کم ہی سہی، مگر اہمیت دی جاتی ہے اور ایک فنی قدر کی حیثیت سے اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح اگر خارجی سطح پر سوچیں تو داستان اور ناول کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچنا کار مشکل نظر آتا ہے۔
اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ داستانیں اپنے عہد اور ہم عصر سماجی اور معاشی حالات کی آئینہ دار اور عکاس ہوتی ہیں۔ اس روشنی میں ناول کی بہترین تعریف یہی ہے کہ ،ناول قصہ گوئی کی اس نثری صنف کا نام ہے، جس میں عہد جدید کی سماجی اور طبقاتی کش مکش کو سنگ میل کی حیثیت ہے۔
حاصل گفتگو یہ ہے کہ ناول کافن داستان کے فن کا اگلا قدم ہے، یہ باہر سے نہیں آیا ہے۔ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ اردو میں ناول انگریزی ادب کی دین ہے۔ یہ مجموعی حقیقت کا ایک جزوی پہلو ہے، حقیقت کل نہیں ہے۔ ہاں، انگریزی ادب کی قربت نے اس پودے کی آبیاری میں زبر دست حصہ لیا ہے۔ دراصل ناول کا فن اردو میں قصہ گوئی کی فطری نشو ونما کی تخلیق ہے اور یہ صنف فطری طور پر داستان کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔