• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قندیل بدر

ادب تخلیق کے بعد احتیاج تنقید سے بالا تر نہیں ہو سکتا۔ عموماً اس کے دائرہ کار کو یہیں تک محدود تصور کیا جاتا ہے۔ یعنی تنقید صرف یہ ہے کہ وہ ادب پارے کے محاسن و معائب، تشریح و توضیح اور مقام و مرتبہ کا تعین کرے، مگر بہ طور ایک شعور کے تنقید تخلیقی عمل کے دوران اور تخلیق سازی کے مراحل میں کیا کردار ادا کرتی ہے اور کس طرح معاون ومددگار ہوتی ہے، ان سوالات پر غور و خوض یقیناً اس کے دائرہ کار میں توسیع کرتا ہے، ادب اور تنقید کے باہمی تعلق کی نئی جہات کو بھی سامنے لاتا ہے۔ اور ان دونوں میں سے کسی ایک کے تقدم کا منطقی جواز بھی فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کے بقول :

’’تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک اور رابطہ ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں، اس بحث میں پڑے بغیر کہ ان دونوں میں کسے اولیت حاصل ہے، اگر ہم ادب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ دونوں صلاحیتیں ایک دوسرے کے فروغ کے لیے ممد و معاون تھیں۔ تنقیدی اصول ہمیشہ فنی تخلیقات کی بنیاد پر استوار ہوتے اور عظیم فن پاروں سے اخذ کیے جاتے ہیں۔‘‘

تخلیق کار تخلیقی سرگرمی کے دوران بہت سارے ایسے فیصلے کرتا چلا جاتا ہےجو اس کی تخلیق کے ابلاغ سے متعلق ہوتے ہیں، اور یہ فیصلے اس کے شعور کے عکاس ہوتے ہیں جسے اس کا تصور ابلاغ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہر تخلیق کار کے ذہن میں تخلیق سے متعلق بھی شعور کی کوئی سطح ضرور موجود ہوتی ہے۔ اور وہ کسی نہ کسی خاص سطح پر اپنی تخلیق کے ابلاغ کا متمنی بھی ہوتا ہے۔ یہی دو باتیں وجدانی و فور کے باوجود اس کے تخلیق کو شعور کا پابند رکھتی ہے اور وہ بیداری کی ارفع ترین سطح پر اپنی ہی وجدانی کیفیت کا تجزیہ بھی کرتارہتا ہے۔ 

یعنی ا پنی تخلیق کو کسی بھی مرحلے پر شعور کی گرفت سے آزاد نہیں ہونے دیتا اور وہ ضروری ترامیم کرتا چلا جاتا ہے جو اس کے تصور تخلیق اور تصور ابلاغ سے متصادم ہوتے ہیں۔ یہی عمل تخلیق مکمل ہونے کے بعد بھی اکثر تخلیق کار آزماتے ہیں۔ اگر اس سارے عمل پر غور کیا جائے تو اسے تنقیدی بصیرت سے خالی قرار نہیں دیا جاسکتا، لہٰذا تخلیق کے بعد عمل تنقید سے ایک مرحلہ قبل بھی تنقید موجود ہوتی ہے، اس مرحلے میں وہ متن سازی میں تخلیق کے پہلو بہ پہلو اتناہی اہم کردار سرانجام دیتی ہے جتنا کہ خود تخلیقی عمل ادا کر رہا ہوتا ہے۔ 

تخلیقی سرگرمی ادبی ہو یا غیرادبی، ہمیشہ ضرورت کے تابع ہوتی ہے، جب کہ ضرورت بے اطمینانی سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم زندگی سے جس قدر غیر مطمئن ہوتے ہیں اسی قدر اسے بدلنے کی جدوجہد کرتے ہیں اور تخلیق اسی جدو جہد کا ایک حصہ ہے۔ تخلیق کار ہمہ وقت زندگی کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھتا رہتا ہے، یہیں اس کے تصور زندگی اور حقیقت زندگی کے بیچ وہ ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے جو تخلیق کا محرک بنتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہیں وہ خام مواد تخلیق کار کو میسر آتا ہے جو تخلیق کی صورت گری کرتا ہے۔

تخلیقی ادب پر کوئی تنقید تخلیقی ادب سے بے نیاز نہیں کر سکتی۔ دونوں کے درمیان کوئی خلیج نہیں ہے۔ ادب میں تنقید شعور کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اس کو واضح کرتی ہے۔ تنقید کے دائرہ کار کے حوالے سے اسے دو حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ ا -نظری ۲ -عملی پہلے حصے میں تنقید ادب سے متعلق تمام تر ضروری مباحث اٹھاتے ہوئے ان اصولوں تک رسائی کی کوشش کرتی ہے جن کی مدد سے تخلیق کو بہتر سے بہتر انداز میں سمجھا جاسکے۔ 

ادب کو سمجھنے کے لیے تنقید دیگر علوم سے مدد لیتی ہے اور بہ طور ایک انسانی سرگرمی کے زندگی میں اس کی اہمیت اور معنویت کا تعین کرتی ہے۔ حسن ، خیر اور صداقت کے معیارات پر ادب کو پر کھتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے جتن کرتی ہے۔ اس قواعد تک رسائی کی کوشش کرتی ہے جو ادب کے پس منظر میں کارفرما رہتی ہے اور یہیں سے ان آفاقی اصولوں تک پہنچتی ہے جن پر تمام ادبی فیصلوں کا دار ومدار ہوتا ہے۔ المختصر ادب سازی کے عمل پر تنقیدی غور وفکر کا نام نظری تنقید ہے۔

دوسرے حصے میں تنقید اپنے پہلے حصے میں قائم کیے گئے آفاقی معیارات پر کسی ادب، ادیب یا کسی ادبی معاملے کی جانچ پر کھ کرتی ہے۔ یہ حصہ اصولوں کے استعمال سے متعلق ہے۔ کسی چیز کو اچھا یا بر اقرارد ینا عمل ہے، جب کہ اچھے یا برے کی پرکھ کے معیار کا تعین نظر ہے۔ 

عملی تنقید در حقیقت نظری تنقید کے مقرر کردہ اعلیٰ و ادنی ، معیار حسین وقبیح ، وقتی و دائمی اور علاقائی و عالمی معیارات کے تناظر میں ادب پارے کو جانچنے، پر کھنے اور تجزیہ کرنے کا کام کرتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ نظری تنقید عملی تنقید سے مبرا بھی ہو سکتی ہے لیکن عملی تنقید ہر صورت میں نظری تنقید کی محتاج ہوتی ہے۔

تنقید کا ایک عمل اصولوں پر تنقید ہے اور دوسرا عمل ان اصولوں کی روشنی میں ادب پاروں کی تنقید کرنا ہے جسے عملی تنقید بھی کہا جاسکتا ہے دونوں کے لیے تنقید کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے لیکن دونوں الگ الگ عمل ہیں۔ اسے کسی ایک محدود دائرے میں مقید نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے اصول وضوابط میں روز افزوں تبدیلی وارتقا کا عمل جاری ہے۔ 

بہ قول ایلیٹ، ہر نئی نسل اپنے ساتھ نیا تنقیدی شعور لے کر آتی ہے اور ہر نئے فن پارے کی تخلیق پچھلی قائم کردہ تمام درجہ بندیوں کو درہم برہم کر دیتی ہے۔ یعنی ہر نیا فن پارہ اپنے لیے نئے تنقیدی نظام کا متقاضی ہوتا ہے اور ہر نئی نسل کے لیے پرانے تنقیدی معیارات اطمینان بخش نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ پرانے تنقیدی اصولوں کی روشنی میں آج کی تخلیقات کو پرکھنا مبنی بر انصاف نہیں، بلکہ زیادتی کے مترادف ہے، جب کہ آج کے تنقیدی اصول و معیارات پر اگر قدیم ادب کو پرکھا جائے گا تو حیرت انگیز نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ 

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آج کی تنقید کا معیار بہت بلند ہے۔ زمانی تغییرات نے تنقید کی صورت کومزید نکھارا اور سنوارا ہے ،کئی دبستانوں کا سفر اور ان میں نت نئے اضافے، کلاسیکی، رومانوی، جمالیاتی، تاثراتی، نفسیاتی اور مارکسی سے لے کر ساختیاتی، پس ساختیاتی، جدید اور مابعد جدید دبستانوں تک کے مراحل تنقید نے جس خوش اسلوبی سے ادا کیے ہیں وہ اس کےلچک دار ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اس کی ہمہ گیر وسعت پر دلالت کرتے ہیں۔ 

اور اس امر کی پیشن گوئی بھی کرتے ہیں کہ تا حال اس کی اختتامی سرحد کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔تا ہم تخلیق کی تفہیم کے تمام مراحل اپنی اصل روح کے ساتھ اسی وقت طے کیے جاسکتے ہیں جب تنقیدی مشتعل ہماری رہنما ہو۔ ادب کے یہ دونوں اسالیب بنیادی طور پر خوب سے خوب تر کی انسانی تلاش کے دو روپ ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی ہمہ دم متغیر زندگی کے نشیب و فراز سے نبرد آزما ہوتا ہوا اسے وہ استحکام بخشتا ہے۔