• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکیڈمی کی تمام سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتا رہا (چھٹی قسط)

پولیس سروس الاٹ ہونے کےبعد مَیں نے سول سروسزاکیڈمی، لاہور(جہاں تمام سروس گروپس کی مشترکہ ٹریننگ ہوتی ہے) جانے کی تیاری شروع کردی اور مقررہ تاریخ پر لاہور پہنچ گیا۔ زیرِ تربیت افسروں (پروبیشنرز) کو قیام وطعام کے لیےدوحصّوں میں تقسیم کیا گیا۔ پچاس لوگ مال روڈ پر واقع اکیڈمی میں رکھے گئے۔ خواتین کو بھی مال روڈ والی عمارت میں علیحٰدہ ہاسٹل میں ٹھہرایا گیا اور باقی ماندہ کو والٹن کی مرکزی عمارت میں۔ کلاسز اور لیکچرز والٹن ہی میں ہوتے تھے، مجھے مال روڈ والی عمارت میں رہائش الاٹ ہوئی۔ ہم ایک بڑے کمرے میں تین لوگ تھے۔ 

پوسٹل سروس کےحامد حمید وارث اور فارن سروس کے خالد حنیف میرے روم میٹ تھے۔خالد(جنرل ضیاء الحق کے بھانجے) کو فارن سروس پسند نہ آئی، تو اُس نے ماموں سے کہہ کرسروس گروپ ہی تبدیل کروالیا۔ دو مہینے بعد پتا چلا کہ اب وہ ڈی ایم جی کا افسر بن گیا ہے۔ ٹریننگ پروگرام اِس طرح تھا کہ علی الصباح سیٹی بجا کر سب کو اُٹھایا جاتا۔ سب لوگ نیکرز اورجوگرز پہن کرگرائونڈ میں پہنچ جاتے، جہاں آرمی کے تربیت یافتہ ریٹائرڈ جے سی او، پی ٹی کرواتے اور دوڑ لگواتے تھے۔ 

اُس کے بعد تیار ہوکر ناشتا کیا جاتا، جس کے فوراً بعد انتظار میں کھڑی بس میں سوار ہوکرتمام خواتین و حضرات والٹن کے لیے روانہ ہوجاتے۔ 30/35 منٹ میں بس والٹن پہنچ جاتی اور وہاں باقاعدہ لیکچرز شروع ہوجاتے۔ ویسے تو پبلک ایڈمنسٹریشن، اکنامکس، اسلامیات اور پاکستان افیئرز پر بھی لیکچر ہوتے تھے، مگر اُن میں کوئی خاص دل چسپی نہ لیتا، البتہ ہفتے میں ایک بار جب جوائنٹ سیشن سے مُلک کی کوئی اہم شخصیت خطاب کرتی، تو تمام لوگ بڑی دل چسپی سے سُنتے۔ 

سابق آئی جی حاجی حبیب الرحمان (جن کا بیٹا آفتاب حبیب ہمارے ساتھ ہی ٹریننگ کررہا تھا) وردی پہن کر آئےاور خواتین کے بارے میں کسی قدرعامیانہ گفتگو کی۔ البتہ ڈسٹرکٹ کاؤنسل جھنگ کی چیئرپرسن، بیگم عابدہ حسین کی بارعب شخصیت اورموثر تقریر اور ایس ایم ظفر کی مدلّل گفتگو اور باوقار انداز نے سب کو بہت متاثر کیا۔

مَیں اکیڈمی کی تمام سرگرمیوں میں بھرپور حصّہ لیتا رہا۔ کرپشن کے خلاف ہونے والے سیمینار میں میری تقریر کو بہت سراہا گیا۔ تین مہینوں کےبعد تمام زیرِتربیت افسران کو ضلعے اور ضلعی افسران کی ورکنگ سے رُوشناس کروانے کے لیے ڈسٹرکٹ اسٹڈی ٹور کا اہتمام کیا گیا۔ ہم چھے افسروں کومردان بھیجا گیا اور مجھے گروپ لیڈر بنادیا گیا، جب کہ میرے ساتھ ڈی ایم جی کے طاہر شہباز (جو اسٹیبلشمینٹ سیکرٹری اور وفاقی محتسب کےطور پر ریٹائر ہوئے) فارن سروس کےنصراللہ خان(جو سفیرِ پاکستان رہے) اکائونٹس کے شاکر شمیم اور تین دیگر افسران تھے۔ 

دس دن خُوب گزرے۔ اُس دوران ضلعے کےتمام افسروں، ڈسٹرکٹ بار کے عہدے داروں اور اہم شخصیات سے ملاقات کروائی گئی۔ ہمارا فوکل پرسن مردان کا اے سی شاہ حسین بڑا زندہ دل آدمی تھا۔ وہ ہر روز کسی شوگر مل والے کو فون کرتا کہ آج مہمانوں کا ڈنر آپ کے ذمّے ہے۔ ایک روز اپنے دفتر میں پریشان نظر آیا، بار بار فون بھی کیے جارہا تھا۔ مَیں نے پوچھا۔ ’’شاہ صاحب! کیا بات ہے، کچھ پریشان لگتے ہیں، لگتا ہے، آج کے ڈنر کے لیے کوئی بھارو (قربانی کا بکرا) نہیں مل سکا۔‘‘ جواباً اُس نے قہقہہ لگایا۔ ’’یارا! یہ سب کچھ مجبوراً کرنا پڑ رہا ہے۔ کاش! میرے پاس اتنے فنڈز ہوتے کہ مَیں کسی صنعت کار کا محتاج نہ ہوتا۔‘‘ ویسے ہر کھانے پرڈرائی اورفریش فروٹ وافر ہوتا تھا، لہٰذا یہ ٹوربڑا ’’فروٹ فُل‘‘ بھی رہا اور معلومات میں بھی اضافہ ہوا۔ 

سول سروسز اکیڈمی کے زیرِ تربیت افسران،دائیں سے بائیں سید حبیب احمد (کسٹمز سروس) ذوالفقار چیمہ (پولیس سروس) اور بابر بھروانہ(ڈی ایم جی)
سول سروسز اکیڈمی کے زیرِ تربیت افسران،دائیں سے بائیں سید حبیب احمد (کسٹمز سروس) ذوالفقار چیمہ (پولیس سروس) اور بابر بھروانہ(ڈی ایم جی)

اِس ٹور کے بعد ہمیں ایک ہفتےکی چُھٹیاں دی گئیں۔ اُس کےبعد ہم اکیڈمی میں اکٹھے ہوئے، تو تعلقات اور دوستیاں کافی مستحکم ہوچُکی تھیں۔ ایک بار اکیڈمی کی لٹریری سوسائٹی نے مشاعرے کا اہتمام کیا۔ مصرعِ طرح تھا؎ شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک۔ مَیں نے اِس پر ارد گرد کے ماحول اور اکیڈمی کے شب وروز کو مدِّنظر رکھ کر ایک مزاحیہ غزل لکھی۔ چند شعراء کے بعد مجھے بلایا گیا۔ پہلے شعر ہی پرہال تالیوں سے گونج اٹھا اور اُس کے بعد ہرشعر پر تالیوں اور نعروں سے داد ملتی رہی۔ 

چند شعر یاد آرہے ہیں؎ سیٹی پیٹی کی جو بجتی ہے، تو دل ہِلتا ہے …خوف سے جاگتے رہتے ہیں سحر ہونے تک۔ ہماری ایک بَیچ میٹ کچھ فربہ تھیں اور وزن کم کرنےکی جدوجہد میں ہاسٹل سے بیرونی گیٹ تک اکثر واک کرتی نظر آتی تھیں۔ اس حوالے سے شعر تھا ؎ رُوم سے گیٹ تلک، واک ہیں کرتے رہتے…جوتے گِھس جائیں گے سب پتلی کمرہونے تک۔ 

سندھ سے تعلق رکھنے والا رکھنے والا فارن سروس کا ایک پروبیشز ہر روز کوٹ پر گلاب کا تازہ پھول لگا کر لڑکیوں کے آس پاس منڈلاتا دکھائی دیتا، اُس کے بارے میں کہا کہ ؎ گُل سجاتے ہو نیا روز، تو گِنتے رہنا…کتنے من پھول لگے، معرکہ سر ہونے تک۔ اِسی طرح ایک میس نائٹ پر ایک مزاحیہ مضمون پڑھا، جسے خاصا سراہا گیا۔ 

اکیڈمی میں مختلف سروسز کے بہت اچھے لوگوں سے تعلق رہا اور اُن سے دوستیاں ہوگئیں۔ ڈی ایم جی کے طاہر شہباز، ارشد مرزا (جو سیکرٹری داخلہ بھی رہے)، عارف خان (سیکرٹری داخلہ اور فنانس رہے)، طاہر رضا نقوی، ابو احمد عاکف (جو ڈائریکٹر جنرل، حج اور بعد ازاں فیڈرل سیکرٹری رہے)، افتخار بابر، خالد اخلاق گیلانی، محمد راشد، امتیاز شیخ (سندھ کےوزیر)، فارن سروس کے ابنِ عباس (برطانیہ میں پاکستان کے سفیر)، غالب اقبال (فرانس میں پاکستان کے سفیر)، نصراللہ خان (سنگاپور میں پاکستان کے سفیر)، پولیس سروس کے رائو اقبال اور شبّیر شیخ کسٹمز سروس کے سیّد حبیب احمد (جو اسلامک بینک جدہ چلے گئے)، خاور مانیکا، اکاؤنٹس سروس کے عبدالرّوف لنگڑیال اور بہت سےدوسرے افسران سے اچھی دوستیاں ہوگئیں۔ 

سی ایس ایس کے ذریعے مختلف سروسز میں آنے والے افسران کی بڑی اکثریت کی رائے ہے کہ سول سروسز کےتربیتی اداروں کےسربراہ باری باری مختلف سروسز سے منتخب کیے جانے چاہئیں۔ ایک سروس گروپ کی اجارہ داری کے سبب اِسی گروپ کے پروبیشنرز کو نوازنے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کا رحجان بہت نمایاں نظر آتا ہے، جو نامناسب ہے۔

سول سروسز اکیڈمی میں صرف فائنل امتحان کی تیاری سنجیدگی سے کی جاتی ہے، ہمارے ہاسٹل پر ایسی سنجیدگی طاری ہوئی کہ میٹرک کے امتحان کی تیاری یاد آگئی۔ کچھ لوگ پروبیشنرز کو باور کروانے کی کوشش کرتے رہے کہ دیکھو یہ کوئی میٹرک، ایف اے کا امتحان نہیں کہ بالکل میز، کرسی کے ساتھ چپک گئےہو، مگر پڑھاکوؤں نے ایسی باتوں پر بالکل کان نہ دھرا۔ پھر یوں ہوا کہ ایک رات دس بجے کے قریب جب تیاری زوروں پر تھی، اچانک ہاسٹل کے باہر ڈھول بجنا شروع ہوگیا۔ جس کی آواز سُن کر تمام لوگ باہر نکل آئے۔ 

خاص لباس اور کلف لگی پیلی پگڑیوں میں دو ڈھولچی پورے جوش وخروش سے ڈھول بجانے میں مصروف تھے۔ اب یہ نہیں ہوسکتا کہ ڈھول کی آواز پرپنجابی نوجوانوں کے، بھنگڑے کے لیے پائوں نہ اُٹھیں۔ سو، پہلے پنجابی افسر آگے آئے، پھر پٹھان اور سندھی بھی جوش میں آگئے اور رات گئے تک بھنگڑا، خٹک ڈانس اور سندھی رقص چلتے رہے۔ خواتین بھی باہر نکل آئیں اورتالیاں بجانے میں شامل رہیں، ڈھول نے کچھ دیر کے لیے پڑھائی اور امتحان بُھلا کے ذہنی تھکاوٹ دُورکردی۔ 

کئی روز تک چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ اکیڈمی کے اندر ڈھولچی کون لے کرآیا تھا؟ کئی دنوں بعد مُخبروں نے شاہ صاحب کو اطلاع دی کہ ’’گیٹ کے پاس ذوالفقار چیمہ اور اطہر سیال ڈھول برداروں کو سو سو روپے دیتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔‘‘ لیکن مخبر کوئی ٹھوس تائیدی شہادت پیش نہ کرسکے، اس لیے یہ کیس داخلِ دفتر ہوگیا۔

سات مہینوں کی ٹریننگ مکمل ہوئی، تو ہمیں تین ماہ کے لیے Army Attatchment پر مختلف جگہوں پہ بھیج دیا گیا۔ مجھے جو احکامات موصول ہوئے، اُن کے مطابق مجھے مَری 12 ڈویژن ہیڈ کوارٹرز رپورٹ کرنا تھی۔ چناں چہ مَیں مقررّہ تاریخِ پر اپنے آفس پہنچ گیا۔ وہاں سیّد طاہر شہباز اور پولیس سروس کے خان گُل پہلے ہی پہنچے ہوئے تھے۔ دو روز بعد ہمیں مختلف جیپوں پربٹھایا گیا، جو ہمیں لے کرمقررہ منزلوں کی جانب روانہ ہوگئیں۔ میری اگلی منزل، باغ قرار پائی تھی۔ 

باغ، جو بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ہے۔ مَیں وہاں دو ہفتےرہا۔ اس دوران ایک بار بریگیڈ کمانڈر صاحب سے بھی ملاقات کروائی گئی۔ اُس کے بعد ایک روز میرا سامان ایک یونی موگ گاڑی میں رکھا گیا، جو16کلو میٹر کا فاصلہ تین گھنٹے میں طے کرکے دس ہزار فٹ کی بلندی پر15سندھ رجمنٹ کے یونٹ ہیڈکوارٹر، زیارت، پیرکنٹھی پہنچ گئی، جہاں مجھے اگلے ڈھائی ماہ گزارنےتھے۔ 

مَیں اپریل کے آخر میں پہنچا، تو آس پاس کے پہاڑ برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔ یونٹ ہیڈکوارٹر، لکڑیوں اورٹین کی چھتوں سے تعمیر شدہ تھا۔ یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر، لیفننٹ کرنل نصرت عباس اوکاڑہ کے سیّد خاندان سے تعلق رکھتے تھے، بہت اچھےانسان،اعلیٰ خاندانی اوصاف کے حامل تھے۔ 

اَن گنت’’نابغۂ روزگار‘‘کی میزبانی کا شرف پانے والی سِول سروسزاکیڈمی، لاہور
اَن گنت’’نابغۂ روزگار‘‘کی میزبانی کا شرف پانے والی سِول سروسزاکیڈمی، لاہور

اُن کے علاوہ یونٹ میں اُن کا ٹو آئی سی (سیکنڈ اِن کمانڈ) ایک میجر، دو کپتان، ایک لفٹین، ایک ڈاکٹر اور باقی Jcos اورکچھ نان کمیشنڈ افسران تھے۔ عارضی تعمیرکردہ کمروں میں سےایک کو آفیسرز میس کا نام دیا گیا تھا۔ رات کے کھانے کے لیے چار پانچ آرمی افسران اور مَیں (سویلین افسر) میس میں اکٹھے ہوئے تو وہاں تازہ موسمی پھل دیکھ کرحیران رہ گیا۔ بےاختیارمنہ سے نکلا کہ ’’آپ واقعی جنگل میں منگل کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘ فوجی افسروں اور جوانوں کو مشکل ترین جگہوں پر بھی رہنا پڑے، تو بھی اُنہیں وقت پر اعلیٰ معیار کا کھانا مہیّا کیا جاتا ہے۔

دوسرے روزناشتے کےبعدکمرے سے باہر نکل کر آس پاس کے ماحول کا جائزہ لے رہا تھا کہ بلاوا آگیا کہ سی او صاحب یاد کررہےہیں۔ کمروں کےدرمیان چھوٹے سے صحن ہی میں کرسیاں بچھی تھیں، ایک نوجوان کیپٹن نے کرنل صاحب کے پاس جاکر پہلے سیلیوٹ کیا اور پھر کسی بات کی اجازت لی، اُنہوں نے اثبات میں سر ہلا کراجازت دی تو کپتان نے بآوازِ بلند ویٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’ٹی بریک لاؤ۔‘‘ ویٹر کچھ دیربعد سینڈوچ، سموسےاورباربی کیو لےآیا۔ 

مَیں سمجھا،کپتان صاحب کی زبان پھسل گئی ہے یا دیہی پس منظر کی وجہ سےانگریزی کم زور ہے،مگر جب دوسرےروز میجر صاحب نے بھی ٹی بریک کرنے کی بجائے ٹی بریک لانے کا حُکم دیا اور بعد میں کرنل صاحب نے خُود بھی لانے ہی پر اصرار کیا، تو تب مَیں سمجھا کہ فوج میں ٹی بریک سے مُراد چائے کا وقفہ نہیں، چائے کے لوازمات ہیں۔ اگلے روز کرنل نصرت صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ ہمارے ساتھ ڈھائی مہینے رہ کر کیا سیکھنا چاہیں گے؟ مَیں پہلے ہی سوچ کر آیا تھا کہ فوج میں رہ کر فائرنگ میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ سو،فوراً جواب دیا۔’’سر! مجھے مختلف ہتھیاروں کی فائرنگ سکھادیں۔‘‘

انہوں نے ایک نائب صوبےدار مقرر کر دیا، جو مجھے روز صبح فائرنگ رینج پر لے جاتا، جہاں مَیں ایس ایم جی، ایل ایم جی اورجی تھری رائفل سے فائر کرتا اور وہ مجھے درست نشانہ لگانے کا طریقہ سمجھاتا۔ مَیں نے وہاں رہ کر ہزاروں راؤنڈز فائر کیے، جس سے میری فائرنگ کامعیار خاصا بہتر ہوگیا۔ نیز، وہیں فوجی افسروں نے مجھے سیلیوٹ کی پریکٹس کروائی۔ مَیں نے پہلے روز سیلیوٹ کیا، تو نائب صوبے دار نے مسترد کرتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں صاحب! یہ کم زورسیلیوٹ ہے۔

سیلیوٹ بہت چٹک ہونا چاہیے۔‘‘ اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے بعد جب پولیس اکیڈمی میں ہماری پیشہ ورانہ تربیت شروع ہوئی، تو مَیں سیلیوٹ اور فائرنگ میں مہارت حاصل کرچُکا تھا۔ یونٹ میں تعینات نوجوان فوجی افسروں کو یہ گمان تھا کہ وہ اپنی ٹریننگ کی وجہ سے زیادہ فِٹ ہیں اور مشکل ترین ٹاسک مکمل کرسکتے ہیں، جب کہ سویلین افسرایساکرنےکی صلاحیت نہیں رکھتے۔ 

ایک رات، ایک نوجوان لفٹین نے کہا کہ ’’مَیں کل صبح ایف ڈی ایل پر (پاکستان کی سرحد پر واقع سب سےآگے کی چوکیاں جن کے بالکل سامنے بھارتی فوجی اپنی چوکیوں پر چلتے پِھرتے نظر آتے ہیں) اپنی آخری چوکی جبڑی پرجارہا ہوں۔ تین گھنٹےکا کٹھن سفر ہے، سامنے پہاڑ پر برف جمی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے پھسلن ہے۔ چوٹی کے پار ڈھلوان شروع ہوتی ہے، جہاں بہت گھنا جنگل ہے۔ مطلب سفرخطرناک ہے، تو کیا ارادہ ہے؟‘‘

اُس کاخیال تھا کہ سویلین افسر ایسے خطرناک، رسکی سفر پر جانے سے گریز کرے گا، مگر مَیں اپنی آخری چوکی پر جا کر اپنے محافظوں سے ملنا چاہتا تھا، لہٰذا مَیں نے صرف یہ پوچھا کہ آپ صبح کس وقت روانہ ہوں گے؟ اُس نے کہا، سات بجے۔ دوسرے روز جب وہ تیار ہو کرجانے لگا، تو مجھے پہلے ہی تیار دیکھ کر حیران رہ گیا۔ 

ہم دونوں برف کی پھسلن پر پاؤں جماتے دو گھنٹوں میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے اور پھر پون گھنٹے میں نیچے اُترتے ہوئے اپنی آخری چوکی پر پہنچ گئے۔ چوکی پر موجود جوانوں نے گرم جوشی سے استقبال کیا۔ انہوں نے شربت پہلے ہی تیار کر رکھا تھا۔ مَیں پیاس سے نڈھال تھا، تو شربت کا پورا جگ پی گیا۔ دس منٹ ریسٹ کے بعد باہر نکلے، تو بھارتی چوکی بالکل سامنے نظر آئی، اپنے محافظوں کےعزم و جرات اور مُلک سے محبّت کو سلام پیش کیا۔ پھر دو تین گھنٹے وہاں قیام کرنے کے بعد واپسی کا سفر شروع کردیا۔

اُس سال جون کا گرم ترین مہینہ اور رمضان المبارک اکٹھے ہی آئے۔ میدانی علاقوں یعنی راول پنڈی اور گوجرانوالہ میں جب سورج آگ برسا رہا تھا اور درجۂ حرارت 47 ڈگری سے اوپر تھا، اُس وقت ہم پیر کنٹھی میں 16 گھنٹے کا روزہ رکھتے اور نمازِ عصر سے مغرب تک بیڈمنٹن کھیلتے، مگر سرد موسم کی وجہ سے افطار کے وقت بھی پیاس محسوس نہ ہوتی۔ شدید سردی سے بچنے اور رہائشی کمروں اور جسموں کو گرم رکھنے کے لیے اردلی کمرے کے اندر لکڑی کا چولھا جلاتا، جس سے کمرے کا ٹمپریچر تو قدرے بہتر ہوجاتا، مگر چند ہی دنوں میں دھویں سے رضائی اور کپڑوں سمیت ہرچیز کالی ہوجاتی۔ اتنی بلندی پر فون کی تو کوئی سہولت نہ تھی، مگر کبھی کبھار عزیزوں، دوستوں کے خط آجاتے۔ 

ایک روز خط کے ذریعے معلوم ہوا کہ والدہ صاحبہ کی طبیعت بہت خراب ہے، چناں چہ مَیں نے کرنل صاحب سے گھر جانے کی چُھٹی لے لی۔ پتا چلا کہ باغ جانے والی گاڑی دوسرے روز جائےگی، مگر مَیں نے اُسی روز جانے کا تہیّہ کرلیا اور بیگ کندھے پر لٹکا کر پیدل چل پڑا۔ آتش جوان اور جذبوں سے سرشار تھا۔ مَیں نے سڑک چھوڑدی اور پہاڑوں سے عموداً اُترتا ہوا ایک گھنٹے میں باغ کے بازار تک پہنچ گیا، وہاں سے بس پر راول پنڈی اور وہاں سے وزیرآباد پہنچ گیا۔ (جاری ہے)