• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسرحافظ حسن عامر

انسان جب کفرو عصیان، غفلت و نسیان کی دلدل میں پھنس کر سرکشی کی روش اختیار کرلیتا ہے، احکامِ ربّانی اور حدودِ الٰہی سے تجاوز کرتا چلا جاتا ہے، تو اُس کے ربّ کی طرف سے تنبیہ و سرزنش کے تازیانے مختلف وبائی امراض، مہلک بیماریوں اور دیگر ارضی وسماوی آفات و بلّیات کی صورت نازل ہوتے ہیں، جیسا کہ قومِ فرعون پر اُن کی پیہم نافرمانیوں، سرکشیوں کی پاداش میں معمولی معمولی جانوروں کے ذریعے عذاب نازل کیے جاتے رہے۔ 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔’’آخرکار، ہم نے اُن پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، جوئیں اور مینڈک پھیلائے اور خون برسایا، یہ سب نشانیاں (آزمائشیں) الگ الگ کرکے دکھائیں، مگر وہ سرکشی میں بڑھتے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم تھے۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت نمبر133)۔ جب اُن پر کوئی بلا اور آزمائش نازل ہوتی تو کہتے۔ 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’اے موسیٰؑ! ہمارے لیے اپنے پروردگار سے دُعا کرو، جس کا اُس نے ہم سے وعدہ کررکھا ہے، اگر تم ہم پر سے اس عذاب کو ہٹا دو، تو ہم ضرور تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے اور ہم تمہارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے، مگر جب ہم اُن پر سے عذاب، ایک وقتِ مقررہ تک کے لیے ہٹالیتے تو وہ اچانک اپنے عہدوپیمان سے پِھر جاتے، تب ہم نے اُن سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا، کیوں کہ وہ ہماری نشانیوں کو جھٹلایا کرتے اور نشانیوں سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘(سورۃ الاعراف، آیت نمبر 134 تا 135)۔قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات میں فرعون اور قومِ فرعون پر نازل ہونے والی ابتلاء اور آزمائش کے ضمن میں درج ذیل پانچ قسم کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔

طوفان: قومِ فرعون پر پہلا عذاب طوفان کی صورت نازل ہوا۔ عربی میں کثرت سے بارش اور سیلاب جو ہر چیز کو بہا کرلے جائے اور غرق کردے، طوفان کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر شدید اور ملک گیر حادثے کوبھی طوفان کہتے ہیں، اس سے آتشیںژالہ باری ، اولوں میں لپٹی ہوئی آگ بھی مراد لیتے ہیں۔ مفسّرین نے اس سے کثرتِ اموات اور وبائی امراض بھی مراد لیے ہیں۔

جَرَاد: قوم ِفرعون پر دوسرا عذاب ٹڈیوں کا بھیجا گیا ’ جَرَاد عربی میں ٹڈیوں کو کہتے ہیں، جو ایک معمولی سا جانورہے، مگر ٹڈی دل فصلوں کی تباہی اور ویرانی کے لیے مشہور ہے، یہ ٹڈیاں ان کے غلّوں اور پھلوں کو چاٹ کر صفایا کردیا کرتی تھیں۔

قُمَّل: فرعون اور قومِ فرعون پر تیسرا عذاب ’’جوں‘‘ کا نازل کیا گیا، قُملَّ عربی میں جوں، سرسری، گھُن، چھوٹی مکّھی اور مچّھر کو بھی کہتے ہیں۔ جوں انسان کے بالوں، کپڑوں اور جسم میں بھی ہوجاتی ہیں، جو انسان کے لیے شدید آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں۔ سُر سری، گھن کا کیڑا، جو غلّے اور اناج میں لگ جاتا ہے اور اس کے بیش تر حصّے کو کھا کر ختم کردیتا ہے۔ سُرسری کا عذاب زرعی معیشت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے اور جب غلّہ اور اناج کو ہی گھن لگ جائے، تو انسان بھلا کس چیز سے پیٹ بھرے گا۔

ضَفَادِع: فرعون اور اس کی سرکش قوم پر چوتھا عذاب، اللہ تعالیٰ نے مینڈکوں کا نازل فرمایا ’’ضَفدَع‘عربی میں مینڈک کو کہتے ہیں۔ مینڈکوں کی کثرت نے قومِ فرعون کا کھانا پینا حرام کردیا تھا۔ مینڈک عموماً پانی کے جوہڑوں اور تالابوں میں ہوتے ہیں، یہ مینڈک بھی ابتلا کی صُورت نازل ہوتے تھے۔ قومِ فرعون کے کھانوں میں، غلّوں میں، بستروں میں اُبلے نظر آتے تھے، جس کی وجہ سے اُن کا کھانا پینا اور آرام کرنا حرام ہوگیا تھا۔

دَم: سرکش فرعون اور اس کی ناہنجار قوم پر پانچواں عذاب خون کا نازل فرمایا۔ دَم‘ عربی زبان میں خون کو کہتے ہیں۔ پینے کا پانی قومِ فرعون کے لیے خون بن جایا کرتا تھا۔ دریائے نیل فرعونیوں کے حق میں خونیں ہو گیا، ان کے لیے پانی پینا ان کے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔ بعض مفسّرین نے اس سے نکسیر کی بیماری مراد لی ہے، یعنی ہر شخص کی ناک سے خون بہتا رہتا تھا۔

مختصر یہ کہ حضرت موسیٰ ؑ ہر بار اُن کے لیے عذاب سے خلاصی کی دُعا فرماتے اور جب وہ عذاب ٹل جاتا، تو قومِ فرعون ایمان لانے کے بجائے کفر و شرک اور انکارِ حق پر جمی رہتی۔ بار بار عذابِ الہٰی کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی جب فرعون اور اُس کی قوم کے لوگ حد سے تجاوز کرتے رہے، تو اللہ تعالیٰ کا ایک شدید عذاب نازل ہوگیا اور فرعون اپنی قوم اور اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ غرق کردیا گیا۔ 

فرعون اور آلِ فرعون پر نازل ہونے والے عذاب کے ضمن میں کلام اللہ میں ’’رجز‘‘ کا لفظ بھی مذکور ہے۔ رجز عربی میں عذاب، بلا، آزمائش، بیماری اور وبائی امراض کے لیے بھی مستعمل ہے، مگر ان آفاتِ سماوی سے بچنے کا طریقہ مؤثرعلاج اور بہترین نسخہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ مقدّس ہی میں بیان فرمایا ہے، اور وہ ہے، توبہ استغفار کے ذریعے رجوع الیٰ اللہ۔ 

یعنی توبہ اور ندامت کے ساتھ اس سے بخشش طلب کرتے ہوئے اپنے ربِ حقیقی کی طرف پلٹنا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔’’اے مومنو! تم سب مل کر توبہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاجاؤ گے۔‘‘ (سورۃ النور آیت نمبر 31)۔مزید ارشاد ہےـ’’اے ایمان والو! اللہ کے آگے صاف دل سے توبہ کرو، امید ہے تمہارا ربّ تمہارے گناہ تم سے دُور کردے گا اور تمہیں جنّت کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا،جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔‘‘ (سورۃ التحریم آیت نمبر8)۔

آیاتِ بالا میں باری تعالیٰ نے صدق و صفائے قلب سے توبہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’اگر تم خلوص و سچائی سے بارگاہِ الٰہی میں توبہ کرو گے، تو نہ صرف تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے، بلکہ اس کے بدلے تمہیں بہشتِ بریں کے ایسے باغات عنایت کیے جائیں گے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔‘‘ ان آیات میں اللہ تعالیٰ توبہ استغفار کا حکم دے رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’توبہ اور استغفار‘‘ کے الفاظ کن معانی و مفاہیم سے عبارت ہیں۔ ’’توبہ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی گناہ سے باز آنا، رجوع کرنا، لوٹنا کے ہیں۔

اصطلاحِ شریعت میں ’’توبہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ دل میں خوفِ الہٰی رکھتے ہوئے گناہ کو گناہ سمجھ کر بارگاہِ الٰہی میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے، اور جو گناہ سرزد ہوچکے ہیں، ان پر اظہارِ شرمندگی اور آئندہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کا عزم کیا جائے۔ توبہ دراصل نام ہے، ندامت و شرمندگی اور پشیمانی کا۔ ارشادِ نبویؐ ہے۔ ’’توبہ کی حقیقت ندامت ہے۔‘‘واضح رہے کہ استغفار بھی عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ بخشش، مغفرت چاہنا، معافی مانگنا کے ہیں۔ 

شریعت کی اصطلاح میں ’’استغفار‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اپنے گناہوں پر نادم، شرمندہ ہوکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بخشش و مغفرت کی درخواست کی جائے، اس سے گناہوں کی معافی چاہی اور مغفرت کا سوال کیا جائے۔ ارشادِ نبویؐ ہے’’گناہوں کی دوا (علاج) استغفار ہے۔‘‘ جب بندہ اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوکر اُس رحیم و غفور ذات کی بارگاہ ِ نیاز میں شرم ساری کے آنسو بہاتا ہے، تو رحیم و کریم آقا کا دریائے رحمت جوش میں آجاتا ہے اور وہ اپنے خطاکار بندے کو معاف فرمادیتا ہے، نجات و مغفرت کو اُس کا مقدر کردیتا ہے۔

جنّت النعیم کی لازوال نعمتوں اور ابدی راحتوں کا پروانہ عطا فرماتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’اُن کا پروردگار، انہیں اپنی طرف سے رحمت اور خوش نودی کی اور ایسے باغات کی خوش خبری دیتا ہے، جن میں اُن کے لیے دائمی نعمتیں ہیں اور وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ یقیناً اللہ ہی ہے، جس کے پاس عظمت والا اجر موجود ہے۔‘‘ (سورۃ التوبہ، آیات 22,21)۔

مزید ارشاد فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ (تمہیں) اپنی مہربانی اور فضل سے جنّت اور مغفرت (بخشش) کی طرف بلاتا ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ، آیت221)۔ علاوہ ازیں، کلام اللہ میں کسی لاعلمی اور نادانی کی صُورت میں سرزد ہوجانے والے گناہوں پر فوراً ہی توبہ اور استغفار کا حکم دیا گیا اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’ اللہ اُن کی توبہ قبول فرماتا ہے، جو نادانی سے کوئی بُری حرکت کر بیٹھتے ہیں اور پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ پس، ایسے لوگوں پر اللہ مہربانی فرماتا ہے اور وہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘(سورۃ النساء، آیت نمبر17)۔مگر کچھ لوگ عُمرِ عزیز کے قیمتی سرمائے کو یوں ہی گنوا دیتے ہیں اور ساری عُمر ظلم و تعدی، سرکشی و نافرمانی، غلط کاری، عاقبت نااندیشی میں گزار دیتے ہیں۔ 

اپنے ربّ کی دی ہوئی مہلتِ عُمر کی ذرا قدر نہیں کرتے، گناہ پر گناہ کیے چلے جاتے ہیں۔ سرکشی و طغیانی میں حد سے بڑھ جاتے ہیں، مگر اللہ کے حضور کبھی توبہ استغفار نہیں کرتے اور اس حالت میں موت سے قریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک دن فرشتہ اجل آہی جاتا ہے اور وقتِ نزع جب عالمِ غیب منکشف ہوتا ہے اور موت کا غرغرہ شروع ہوجاتا ہے، تب وہ اپنے ربّ کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں، مگر تب توبہ کا وقت گزر چکا ہوتا ہے اور اس وقت کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ 

ارشادِ ربّ العزت ہے کہ’’اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی، جو (ساری عُمر) بُرے کام کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت آجاتی ہے، تو اُس وقت کہنے لگتے ہیں، اب میں توبہ کرتا ہوں۔‘‘(سورۃالنساء، آیت نمبر18)۔ اسی طرح بعض وہ لوگ جو انکار و اعراض اور کفر و شرک کی روش پر قائم رہتے ہیں اور اسی حالت میں دنیا سے چلے جاتے ہیں، اُن کے بارے میں بھی قرآن دردناک عذاب اور توبہ کی عدم قبولیت کا اعلان کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور نہ اُن لوگوں کی (توبہ قبول ہوگی) جو حالتِ کفر (وشرک) میں مر جاتے ہیں۔‘‘(سورۃ النساء، آیت نمبر18)۔

قرآنِ مجید کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا میں مصائب و آلام ،آفاتِ ارضی، آسمانی بلّیات کا نزول اور ناگہانی واقعات و حادثات کا ظہور، انسانوں کے اپنے اعمال کی شامت ہے۔ ارشادِ ربّ العزت ہے۔ ’’اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے، سو، وہ تمہارے اپنے (ہی) اعمال (کی وجہ سے ہے)۔‘‘(سورۃ الشوریٰ، آیت نمبر30)۔

سابقہ امّتوں کے احوال و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اقوام پر جو قہرِ الٰہی نازل ہوا، وہ اُن کی بد اعمالیوں اور بدکاریوں کے سبب ہی نازل ہوا۔ ارشادِ ربِ العزت ہے کہ’’پس، ہم نے سب کو اُن کے گناہوں کے سبب پکڑلیا، اُن میں کچھ تو ایسے تھے، جن پر پتھروں کی بارش کی، کچھ ایسےتھے، جنہیں چنگھاڑ نے آپکڑا اور کچھ ایسے تھے، جنہیں ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ ایسے تھے، جنہیں غرق کردیا اوراللہ ایسا نہ تھا کہ اُن پر ظلم کرتا، لیکن وہ اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔‘‘ (سورۃ العنکبوت، آیت نمبر40)۔ 

انسان کو اس تمرد وسرکشی کی روش چھوڑ کر حق تعالیٰ کی بارگاہ میں خشوع و خضوع، الحاح وزاری سے توبہ کرنی چاہیے۔ اس سے طلبِ مغفرت اور نزولِ رحمت کی دعائیں مانگنی چاہئیں، اس کے فضل اور مہربانی کا سوال کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں انفرادی توبہ کے ساتھ اجتماعی توبہ کا بھی اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔ 

چناں چہ باری تعالیٰ قرآنِ حکیم میں اجتماعی توبہ کی تلقین کرتے ہوئے ارشادفرماتا ہے۔ ’’اے مومنو! تم سب مل کر اللہ کی جناب میں توبہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاجائوگے۔‘‘ (سورۃ التوبہ، آیت نمبر31)۔ توبہ کی حقیقت تو اپنے گناہوں پر ندامت وشرم ساری ہے، استغفار اپنے گناہ اور معاصی پرباری تعالیٰ سے طلبِ مغفرت ہے، احادیث مبارکہ ؐ میں توبہ اور استغفار کے بہ کثرت فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ۔’’گناہ سے توبہ کرنے والا گناہ گار بندہ بالکل اُس بندے کی طرح ہے، جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘(سنن ابنِ ماجہ)

نبی اکرمﷺ نے ایک موقعےپر فرمایا۔ ’’لوگو! اللہ کے حضور توبہ کیا کرو، مَیں خود دن میں سوسو دفعہ اُس کے حضور توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ایک حدیث مبارکہ ؐ میں فرمایا گیاکہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے قصور اور گناہوں پر نادم ہوکر اپنے آقا ومولیٰ، ربِّ کریم کے حضور توبہ کرتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔ ’’ہر آدمی خطا کار ہے اور خطاکاروں میں بہترین ہ لوگ ہیں، جو (خطاو قصور کے بعد) مخلصانہ توبہ کرتے ہیں۔‘‘(جامع ترمذی)۔ایک دوسرے مقام پر رسولِ مکرمﷺ نے توبہ کرنے والوں کو اللہ کا دوست کہا ہے۔ ارشاد نبوی ؐ ہے۔ ’’توبہ کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔‘‘(ابنِ ابی الدنیا)

اسی طرح استغفار کی فضیلت بیان کرتے ہوئے سرور ِعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’جو شخص کثرت سے استغفار کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تنگی، مشکل سے نکلنے اور رہائی پانے کا راستہ بنادیتا ہے، اس کی ہر فکر اور پریشانی دُور کرکے کشادگی اور اطمینان عطا فرماتاہے، اُسے اُن طریقوں سے رزق دیتا ہے، جن کا اُسے گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ابنِ ماجہ، مسند احمد ابنِ حنبل)۔ 

ایک اورحدیث ِمبارکہ ؐ میں فرمایاگیا کہ لائقِ مبارک باد ہے وہ شخص، جس کے نامۂ اعمال میں روز ِمحشر استغفار کی کثرت ہوگی۔ ارشادِ مبارک ؐ ہے۔ ’’خوشی اور مبارک ہو، اُس بندے کو، جو اپنے اعمال نامے میں بہت زیادہ استغفار پائے۔‘‘ (یعنی آخرت میں وہ دیکھے کہ اس کے نامۂ اعمال میں بہ بکثرت استغفار درج ہو۔)(سنن ابنِ ماجہ، سنن نسائی)۔

علاوہ ازیں، احادیث ِمبارکہ ؐ میں اپنے ساتھ اپنے مومن بھائیوں اور بہنوں کے لیے استغفار کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے کہ’’جو بندہ عام مومنین و مومنات کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگے گا ،اُس کے لیے ہر مومن مردو عورت کے حساب سے ایک ایک نیکی لکھی جائے گی۔‘‘ (معجم کبیر للطبرانی)۔ 

ایک حدیث ِ مبارکہ ؐ میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنّت میں کسی مرد صالح کا درجہ ایک دم بلند کردیا جاتا ہے، تو وہ جنّتی بندہ پوچھتاہے کہ اے پروردگار! میرے درجے اور مرتبے میں ترقی کس وجہ سے اور کہاں سے ہوئی؟جواب دیا جائےگا کہ تیرے واسطے فلاں اولاد کی دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے۔‘‘(مسند احمد)

قرآن وحدیث کی مذکورہ تصریحات سے واضح ہوا کہ انسان غفلت و گم راہی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جائے اور دل میں ہمہ وقت موجزن رہنے والی خواہشات سے نبرد آزمائی کے بجائے نفسِ امارہ کی لغزشوں کی رَو میں بہہ جائے، دنیوی لذتوں میں محو ہوکر اپنے رحیم و کریم آقا و مالک کے احکام و فرامین سے روگردانی کرے اور اس کی نافذ کردہ حدود و قیود سے منہ موڑ لے، تو پھر آفاتِ ارضی و سماوی، آزمائش اور ابتلاء کی صُورت نازل ہونے لگتی ہیں۔ 

مثلاً قحط، طوفان، سیلاب، ٹڈی دل، غذائی قلت، بے چینی، بے اطمینانی، خوف و افلاس، مختلف وبائیں، لاعلاج امراض مثلاً کورونا وائرس جیسی حالیہ عالمی وبا، ڈینگی مچّھر، چکن گونیا، کانگو وائرس اور دیگر مہلک حیاتیاتی جراثیم سے ہونے والی بیماریاں وغیرہ۔

دراصل، یہ انسانوں کے لیے تنبیہ و سرزنش کے تازیانے ہیں اور ان تمام آفتوں، آزمائشوں اور ابتلاؤں سے بچنے کا واحد طریقہ اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں توبہ یعنی ندامت و شرمندگی کے آنسو اور استغفاریعنی بخشش، مغفرت اور معافی کی درخواست ہے۔