غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور ناکہ بندی کے دوران غذائی قلت نے بچوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ غذائی قلت اور بنیادی سہولیات کی کمی کے باعث نومولود اور چھوٹے بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے محاصرے کے باعث ان بچوں کو نہ مناسب خوراک مل رہی ہے بلکہ صحت کی سہولتوں تک رسائی بھی محدود ہو چکی ہے۔
محاصرے کی وجہ سے انسانی ہمدردی کی امداد بھی بہت کم ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں بچے قحط اور شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل کے محاصرے کی وجہ سے غزہ کے اسپتالوں میں ایندھن بھی ختم ہوچکا ہے۔ نورالحورانی نامی ایک خاتون نے الجزیرہ کو بتایا کہ اس کا 5 ماہ کا بیٹا عبدالعزیز اپنی پیدائش سے ہی بھوک کا شکار تھا اور اس کا دل رک چکا تھا، اسپتال کے جنریٹر میں ایندھن کی کمی کی وجہ سے اسے مناسب سہولتیں بھی نہیں مل سکیں ڈاکٹرز کی انتھک محنت اور کوششوں کی وجہ سے اس کا بیٹا بچ تو گیا مگر اس کا وزن بہت کم ہوگیا، ہاتھ پاؤں بہت پتلے تھے اس کی وجہ غذائی قلت ہی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق غزہ میں جاری محاصرے اور بھوک کے سبب غذائی قلت پھیل چکی ہے اور بچے اس کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔
نور اور اس کے بیٹے کی کہانی ان ہزاروں لوگوں کی کہانی ہے جو جنگ اور ناکہ بندی کے اثرات سے گزر رہے ہیں، جہاں بنیادی خوراک اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی نے انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
خیال رہے کہ جولائی میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں قحط واقع ہو رہا ہے۔ غزہ میں 96 فیصد فلسطینی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 38 افراد غذائی قلت کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے تھے۔ مزید 50 ہزار غذائی قلت کے شکار بچوں کو فوری طبی مداخلت کی ضرورت ہے۔