• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات ہے 15اپریل 1985ء کی۔39سال پہلے جب سوشل میڈیا کے ذریعے ہیجان برپا کرنے کا رجحان نہیں تھا تو ایک حادثے کے بعد گردش کرنے والی افواہوں نے روشنیوں کے شہر کراچی کو تاریکیوں میں دھکیل دیا۔ناظم آباد چورنگی کے پاس الطاف علی بریلوی روڈ پر سرسید گورنمنٹ گرلز کالج جو آج بھی قائم ودائم ہے ۔یہاں زیر تعلیم 20سالہ لڑکی بشریٰ زیدی اور اس کے بڑی ہمشیرہ نجمہ زیدی کو تیز رفتارمنی بس نے کچل ڈالا توشہر میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔کراچی میں ویسے بھی زندگی بہت برق رفتار ہے ۔ایک زمانے میں مشہور زمانہ بس W-11پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ بس کسی اسٹاپ پر رُکتی نہیں محض اس کی رفتار کم ہوتی ہے اور بجلی کی سی تیزی سے مسافر اُترتے چلے جاتے ہیں۔بہر حال جس دن یہ حادثہ پیش آیا ،اس روز دراصل ’’ایکس تھری روٹ‘‘پر چل رہی دو بسوں میں ریس لگ رہی تھی۔اس روٹ پر چلنے والی فورڈ ویگن جو بالعموم پیلے رنگ کی ہوا کرتی تھیں ،بے ہنگم ڈرائیونگ کی وجہ سے انہیں ’’پیلا شیطان‘‘(Yellow Devil)کہا جاتا تھا۔بشریٰ زیدی اور اس کی بہن جس منی بس پر سوار تھیں ،اس کے ڈرائیور کی خواہش تھی کہ وہ کالج اسٹاپ پر رُکنے کے بجائے جلدی سے اگلے اسٹاپ پر پہنچنے میں کامیاب ہو اور وہاں منتظر سواریاں اس کے حصے میں آئیں۔طالبات نے اصرار کیا کہ ہمیں تو اسی اسٹاپ پر اُترنا ہے تو ڈرائیور کی طرف سے کہا گیا کہ میں ایک لمحے کے لئے گاڑی کی رفتار کم کروں گا اور تم جلدی سے اُتر جانا۔چلتی بس سے اُترنے کی کوشش میں دونوں بہنیں توازن برقرار نہ رکھ سکیں ،ڈرائیور نے ایکسیلیٹر دبا دیا اوراسی منی بس کے ٹائروں نے دونوں کو کچل ڈالا۔ اس ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونے والی طالبات کا خاندان نارتھ ناظم آباد میں حیدری شاپنگ سینٹر کے قریب ایک کثیرالمنزلہ عمارت کے تیسرے فلور پر موجود اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا۔ان کے والد جن کا نام شاید شبرحسین زیدی تھا ،حصول روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر تھے ۔ان بچیوں کو عباسی شہید ہاسپٹل لے جایا گیا جہاں بشریٰ زیدی کی موت کی تصدیق کردی گئی ۔منی بس کا ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔الطاف علی بریلوی روڈ پر سرسید گورنمنٹ گرلز کالج کے علاوہ بھی کئی تعلیمی ادارے تھے ۔جب معلوم ہوا کہ منی بس کے ڈرائیور نے دو طالبات کو کچل کر ہلاک کردیا ہے تو طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد جائے حادثہ پر جمع ہوگئی ۔تب نیوز چینل ،موبائل فون یا ڈیجیٹل میڈیا تو نہیں ہوا کرتا تھا مگر یہ خبر جنگل کی آگ کی مانند پھیلتی چلی گئی ۔مشتعل اور بپھرے ہوئے ہجوم نے توڑ پھوڑ شروع کردی ۔کئی منی بسوں کو جلا دیا گیا ،دکانیں بند ہوتی چلی گئیں اور جب تک سندھ حکومت کو صورتحال کی سنگینی کا اِدراک ہوا ،تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔کراچی میں ٹرانسپورٹ کا دھندہ پشتونوں نے سنبھال رکھا تھا ۔کئی برس سے بدگمانیاں پھیل رہی تھیں ۔اردو بولنے والوں کا خیال تھا کہ وہ اپنے شہر میں غیر محفوظ ہوتے جارہے ہیں ،ان کے وسائل غصب کئے جارہے ہیں ۔ڈرائیور اور کنڈیکٹر پڑھے لکھے نہیں ہوتے ،جب وہ مسافروں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے توپشتونوں سے نفرت میں اضافہ ہوتا جاتا۔جب بھی کوئی افسوسناک حادثہ پیش آتا تو ٹرانسپورٹر حضرات جتھے کی شکل میں جمع ہوجاتے اور اپنے ڈرائیور پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دیتے ۔اس حادثے کے بعد بھی یہی کچھ ہوا ۔د و افواہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ،ایک یہ کہ ڈرائیور پشتون تھا اور دوسری یہ کہ منی بس کسی پولیس افسر کی ملکیت تھی اس لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی قسم کی کارروائی نہیں کررہے۔حقیقت یہ تھی کہ حادثے کا ذمہ دار ڈرائیور پشتون نہیں بلکہ کشمیری تھامگر ایک موقع آتا ہے جب تاثر یعنی Perception حقیقت سے کہیں زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے اور اسے جھٹلانا دشوار ہوتا ہے۔کراچی میں بھی یہی ہوا ۔اس واقعہ کے بعد لسانی فسادات پھوٹ پڑے ۔پولیس نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے اس قدر آنسو گیس استعمال کی کہ دن میں اندھیرا چھا گیا۔جب حالات کنٹرول میں نہ رہے تو فوج طلب کرکے کراچی میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔مگر جذبات کا یہ عالم تھا کہ لوگ کرفیو کے باوجود گھروں تک محدود رہنے کو تیار نہ تھے ۔محتاط اندازے کے مطابق ان فسادات میںکم ازکم 200افراد مارے گئے اور کراچی کی رونقیں پھر کبھی بحال نہ ہوسکیں ۔یہاں تک کہ آج تک اس واقعہ کی پرچھائیوںنے شہر قائد کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔دراصل برسہا برس سے لاوا پک رہا تھا،یہ واقعہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا ،انتظامیہ نے معاملات کو دبانے کی کوشش کی تو حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔کراچی کا یہ افسوسناک واقعہ یوں یاد آیا کہ لاہور میں بھی ایک نجی تعلیمی ادارے سے متعلق زیر گردش افواہوں کے سبب بھونچال آگیا۔یہ سب کچھ یونہی دفعتاً نہیں ہوگیا،بدگمانیاںایک عرصہ سے موجود ہیں ۔تعلیم کاروبار بن چکی ہے اب استاد اور شاگرد کا تعلق محض ایک سوداگر اور خریدار تک محدود ہے ۔طلبہ و طالبات کو صارف کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو منافع بڑھانے کا ذریعہ ہیں ۔دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتوں سے متعلق لوگوں کو ایمان کی حد تک اس بات کا یقین ہے کہ کسی بااثر ،دولتمند اور طاقتور ترین شخص کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی اور اگر کسی ایسے شخص کا نام آرہا ہو تو پورا نظام اسے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لاہور میں جو کچھ ہوا ،اس کا سبب محض ابلاغ کے جدید ذرائع ہیں۔اس لئے حکومت کی طرف سے سنسر شپ کی گرفت مزید مضبوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مگرمحض سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔یہ تاثر دور کرنا ہوگاکہ سیٹھ کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکتا۔کیونکہ 39سال پہلے جب ایک طالبہ کو کچل کر ہلاک کردیئے جانے پر کراچی میں فسادات پھوٹ پڑے تو تب سوشل میڈیا ہی کیا نیوز چینل اور موبائل فون بھی نہیں تھے۔

تازہ ترین