ملک کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی مرکز کراچی جو کبھی معیاری بلدیاتی سہولتوں ، امن وامان، صحت و صفائی ، بارونق دنوں اور جگمگاتی راتوں کی وجہ سے عروس البلاد کہلاتا تھا، پچھلے کئی عشروں سے شدید بدانتظامی،بنیادی شہری سہولتوں کے فقدان،پانی کی کمیابی، سیوریج کی غلاظت ،شکستہ سڑکوں اور اُن پر دن رات جاری لوٹ مار کے باعث اپنے لگ بھگ تین کروڑ مکینوں کے لیے دارا لعذاب بن گیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی نے مسائل کی شدت مزید بڑھادی ہے جس کے نتیجے میں اکتوبرکے مہینے میں بھی پارہ چالیس ڈگری تک پہنچ رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ میٹروپولیٹن شہر میں بجلی کی فراہمی کی ذمے دار کمپنی کے الیکٹرک نے گرمی کی شدت کے پیش نظر بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے بجائے بجلی کے بلوں کی سو فی صد ادائیگی والے علاقوں میں بھی تکنیکی خرابی کے نام پر غیرعَلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جبکہ جن علاقوں میں بلوں کی وصولی کم ہونے کی بنیاد پر طے شدہ اوقات میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے ان میں بجلی کی بندش کا دورانیہ بارہ سے اٹھارہ گھنٹوں تک جاپہنچا ہے۔ کے الیکٹرک کی اس من مانی کیخلاف بعض سیاسی جماعتوں نے عدالت سے بھی رجوع کر رکھا ہے ۔ تین ماہ پہلے سندھ ہائی کورٹ میں بجلی کمپنی نے دعویٰ کیا تھا کہ شہر کے70 فی صد علاقے لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں جبکہ بجلی چوری کی وجہ سے صرف 30فی صد علاقوں میں مجرموں کے خلاف کارروائی کے دوران بجلی کی سپلائی متاثر ہوسکتی ہے۔ اس دعوے کا خلاف واقعہ ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں کیونکہ حقیقت سب کے سامنے ہے ۔ صوبے کی حکمراں جماعت بھی بجلی کمپنی کی ناقص کارکردگی سے نالاں ہے۔ بلاول بھٹو حکومت کو تجویز دے چکے ہیں کہ کے الیکٹرک کی اجارہ داری ختم کرکے بجلی کی نئی کمپنی بنائی جائے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تمام کاروبارزندگی کو معطل رکھنے والی اس لوڈ شیڈنگ کو جلد ازجلد بند کرواکے شہر میں مستقل بنیادوں پر بجلی کی بلا تعطل فراہمی کا بندوبست کیا جائے۔