وطن عزیز کے معاشی بحالی پروگرام کے سلسلے میں رواں ہفتے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف کا اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ ہونے والا برادر اور دیرینہ دوست ممالک سعودی عرب اور قطر کا ،کامیاب دورہ دور رس نتائج کا حامل ہے۔ دورے کے دوسرے مرحلے میں وزیراعظم نے خصوصی دعوت پر دوحا میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور وزیراعظم شیخ محمد بن عبد الرحمٰن ثانی سے ملاقاتیں کیں، دونوں ملکوں کے درمیان تجارت،سرمایہ کاری، توانائی اور ثقافت سے متعلق شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال ہوا،وزیراعظم شہباز شریف نے قطری سرمایہ کاروں کو پاکستان کے متنوع اقتصادی شعبوں بشمول زراعت،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سیاحت میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔قطری وزیراعظم نے خطے میں پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت واضح کرتے ہوئےاپنے اقتصادی ترقی اوراقتصادی استحکام نظریے کے مطابق پاکستان کے ساتھ تعلقات مزیدبہتر بنانے کا عزم ظاہر کیا۔انھوں نے افغانستان سمیت خطے میں امن کے فروغ کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنےمیں دلچسپی کا اظہار کیا۔یاد رہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں پرامن انتقال اقتدار کے سلسلے میں پاکستان،امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ہونے والی بات چیت میں قطری حکومت کا مرکزی کردار کارفرما تھا۔پاکستان اور قطر کے درمیان برادرانہ، دوستانہ اورتجارتی تعلقات سالہا سال سے چلے آرہے ہیں اور بارہامختلف وفود کا تبادلہ ہوچکاہے۔2022میں امیرقطر کے دورہ پاکستان سےدنیا کو یہ واضح پیغام ملا تھا کہ قطرخطے میں پاکستان کے کلیدی کردار کو تسلیم کرتا ہے۔وزیراعظم کے حالیہ دورے میں دونوں رہنمائوں کے درمیان فلسطین اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پرہونے والے تبادلہ خیال میں مکمل ہم آہنگی پائی گئی۔وزیراعظم شہباز شریف نے دورےکے اختتام پر اپنے پیغام میں قطری قیادت کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو دوستی اور بھائی چارے کے رشتے مزیدمضبوطی سے ہمکنار کرنے میں معاون قراردیا۔ روس اور ایران کے بعد قطر گیس کے ذخائر رکھنے والا دنیا کاتیسرا بڑا ملک ہے، متذکرہ دونوں ملکوںکے مقابلے میں یہ بہت کم آبادی اور رقبے کا حامل ہے۔اسی طرح مائع قدرتی گیس کا سب سے بڑاایکسپورٹر ہے اور پاکستان اس کا ایک بڑا خریدار ہے۔ قطر پاکستان سے بڑی مقدار میں آم،چاول،گائے اور مرغی کا گوشت،آلواورپیازجبکہ مصنوعات میںفٹبال درآمد کرتاہے۔گزشتہ برس قطرکیلئے پاکستانی برآمدات 17.81فیصدگر کر 16کروڑ32لاکھ ڈالرکی سطح پر آگئی تھیں تاہم 2022ءاور2023ءکے دوران فٹبال کی غیرمعمولی برآمدات نے بڑی حد تک یہ فرق پورا کیا۔اس کی ایک بڑی وجہ فیفا ورلڈ کپ فٹبال ٹورنامنٹ کا انعقاد تھا۔قطر میں کم وبیش پانچ دہائیوں سے پاکستانی محنت کشوں کی کثیرتعداد مقیم ہے۔ایک اندازے کے مطابق قطر کی 30لاکھ آبادی میں7لاکھ سے زیادہ تارکین وطن کا تعلق بھارت،4لاکھ سے زیادہ نیپال اور اسی قدر بنگلہ دیشی اور سری لنکن باشندے وہاںقیام پذیر ہیں،جبکہ پاکستانی افراد کی تعداد3لاکھ کے لگ بھگ ہے،2016میں اس وقت کے وزیراعظم کے تقاضے پرایک لاکھ کا اضافہ ہوا تھا۔وزیراعظم شہباز شریف کا حالیہ دورہ قطر مختلف پہلوئوں سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔اس سے دوطرفہ تجارت ، سرمایہ کاری اور افرادی قوت کی برآمد بڑھانےمیںمدد ملے گی۔امید کی جاتی ہے کہ وزیراعظم اور قطری قیادت کے مابین ہونے والی بات چیت جلد آگے بڑھے گی۔دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم بڑھانے کی ابھی بڑی گنجائش موجود ہےجبکہ سرمایہ کاری کے ضمن میں سیاحت کا شعبہ خصوصی اہمیت کا حامل ہونا چاہئے۔