ادارہ شماریات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کم ہو رہی ہے مگر حکومت اپنے دائرہ اختیار میں آنے والی ضروریات زندگی میں اضافہ کر رہی ہے۔ یکم نومبر سے اس نے ایک بار پھر پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتیں بڑھا دی ہیں جبکہ اوگرا نے بھی سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی ایل پی جی دو روپے 89پیسے فی کلو مہنگی کر دی ہے۔ پٹرول کے نرخوں میں ایک روپیہ 35پیسے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل میں تین روپے 85 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے جس پر پندرہ نومبر تک عملدرآمد جاری رہے گا۔ قیمتوں میں اس ردوبدل کا سبب عالمی سطح پر تیل کے نرخوں میں اتار چڑھائو بتایا گیا ہے حالانکہ بین الاقوامی نرخوں میں پانچ فیصد کمی کی اطلاعات ہیں۔ مٹی کا تیل ایک روپے 48 پیسے اور لائٹ ڈیزل دو روپے 61پیسے فی لیٹر سستا کیا گیا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں اضافے سے بار برداری کے کرایوں میں اضافہ ہو گا جس سے منافع خوروں کو اشیائے خوردنی کی قیمتیں بڑھانے کا جواز مل جائے گا اور صارفین جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ،کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ناقابل برداشت ہونے کی بڑی وجہ حکومت کی عائد کردہ لیوی ہے۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ حکومت لیوی یا ٹیکس کم کر کے پٹرولیم کے نرخوں کو نیچے لا رہی ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ لیوی کا معاملہ یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی بھی مالی سال کی پہلی سہ ماہی یعنی جولائی سے ستمبر تک اس مد میں سب سے زیادہ یعنی 261ارب 69کروڑ روپے وصول ہوئے جو متوقع ہدف سے 39ارب 62کروڑ روپے زیادہ ہیں۔ حکومت اگر لیوی کم کر دے تو پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی اعتدال پر آ سکتے ہیں۔