• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاپان کے مرکزی جزیرے ہونشو میں 2011 میں آنے والی سونامی کا ایک منظر—فائل فوٹو
جاپان کے مرکزی جزیرے ہونشو میں 2011 میں آنے والی سونامی کا ایک منظر—فائل فوٹو

آج دنیا بھر میں سونامی سے آگاہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام سونامی کا عالمی دن منانے کا مقصد خوفناک طوفان سے ہونے والی تباہی سے بچاؤ کے لیے شعور بیدار کرنا ہے۔ 

واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے جاپان کی تجویز پر 2015ء میں سونامی سے آگاہی کا دن منانے کا فیصلہ کیا تھا۔

سونامی کیا ہے اور کیوں آتا ہے؟

سونامی ایک ایسی قدرتی آفت ہے جو شاذ و نادر ہی آتی ہے لیکن اس کے آنے کے بعد شہر کے شہر اجڑ جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ریکٹر اسکیل پر 6.5 کی شدت سے آنے والے بڑے زلزلوں کے سبب سمندر کے نیچے ٹیکٹونک پلیٹیں حرکت میں آتی ہیں، زیرِ آب یہ اچانک حرکت سونامی کی لہروں کا سبب بنتی ہیں۔

گزشتہ 100 سال میں 58 سونامی آ چکے ہیں، جن میں لاکھوں افراد اور جانور اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

تاریخ کے سب سے تباہ کن سونامیوں میں سے ایک 2004ء میں انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں آنے والا سونامی تھا، جب 9.1 شدت کے زلزلے کے بعد سونامی کی 50 میٹر بلند لہروں نے 5 کلو میٹر تک کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، جس سے تقریباً 2 لاکھ 30  ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس سونامی کے اثرات سری لنکا، تھائی لینڈ اور بھارت میں بھی محسوس کیے گئے تھے۔

جاپان کے مرکزی جزیرے ہونشو میں 2011ء کے 9.0 شدت کے زلزلے اور سونامی سے تقریباً 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

بحرِ اوقیانوس، بحیرۂ کیریبین، بحیرۂ روم اور بحر ہند بھی سونامی کے تجربات بھگت چکے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ سونامی سے خبردار کرنے کا نظام ہر جگہ موجود نہیں ہے۔

 2030ء تک ساحلی آبادیوں کے لیے سونامی، سیلاب اور طوفانوں کا خطرہ بہت بڑھ جائے گا، اس لیے سونامی کے خطرے سے بچاؤ کے اقدامات بہت ضروری ہیں۔

خاص رپورٹ سے مزید