امریکہ میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے، نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں ابھی 71 دن باقی رہ گئے ہیں جسکا سب کو انتظار ہے لیکن اس بار کی یہ تقریب محض رسمی نہیں ہوگی، بلکہ ٹرمپ کے پہلے دن کے اقدامات کی بازگشت پہلے ہی سے امریکہ بھر میں سنائی دے رہی ہے۔
20 جنوری کو، وہ بطور صدر حلف اٹھائیں گے جسکے فوراً بعد وہ وائٹ ہاؤس منتقل ہو جائیں گے، جہاں وہ اپنے افتتاحی خطاب میں ایک دھماکہ خیز وژن پیش کریں گے جو امریکہ کی سیاست کو ہلا کر رکھ دے گا۔
صدر بائیڈن کی وائٹ ہاؤس سے روایتی روانگی کے بعد ٹرمپ ایک خصوصی دستخطی تقریب میں اپنے پہلے سرکاری احکامات پر دستخط کریں گے، جنہیں ان کے حامی ایک نئے اور جارحانہ دور کا آغاز سمجھ رہے ہیں۔
یہ دن امریکی تاریخ میں ایک طاقتور تبدیلی کا اشارہ دے گا۔ اس سال اکتوبر کے آخر میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ "پہلے دن بہت سی چیزیں کی جائیں گی۔" "آپ کا سر گھوم جائے گا جب آپ دیکھیں گے کہ کیا ہونے والا ہے۔"
اسطرح وہ اپنے دوسرے دور صدارت کے پہلے ہی دن ایسے فیصلے کریں گے جو ہر کسی کو حیران اور پریشان کر دیں گے۔ وہ کیا فیصلہ ہونگے اسکا اندازہ ٹرمپ کے اپنے انتخابی جلسوں میں بارہا وعدوں سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے روز کیا تاریخی فیصلے کریں گے۔
ان کے ایجنڈے میں کئی ایسے اقدامات شامل ہیں جو فوری طور پر قابلِ عمل ہیں، جن میں غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے بڑے پیمانے پر اقدامات، اہم سرکاری اہلکاروں کی برطرفیاں اور کئی متنازعہ ایگزیکٹو آرڈرز شامل ہیں۔
ٹرمپ کی ایک بڑی ترجیح امیگریشن قوانین کو سخت کرنا ہے۔ انہوں نے تاریخ کا سب سے بڑا ڈیپورٹیشن پروگرام شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے، جس کے تحت انہوں نے لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک سے نکالنے کا عزم ظاہر کیا ہے، جس میں سب سے زیادہ متنازعہ ان کا ملک بدری کا منصوبہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ اپنے منصوبے پر عمل کرتے ہیں تو تقریباً 10 سے 12 ملین غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس مقصد کےلیے مقامی پولیس اور نیشنل گارڈ کی مدد لی جائے گی۔ تاہم امریکی سول لبرٹیز یونین (ACLU) اور دیگر تنظیموں نے واضح کیا ہے کہ وہ ان اقدامات کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ پہلے دن ہی ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کریں گے جس سے امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت ملنے کا حق ختم ہو جائے گا۔ یہ اقدام نہ صرف آئینی پیچیدگیاں پیدا کرے گا بلکہ اس کے خلاف بھی فوری قانونی چیلنجز متوقع ہیں۔
انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر دی جانے والی پیرول سہولت کو ختم کریں گے جو ہزاروں افراد کو امریکا میں عارضی طور پر رہنے کی اجازت دیتی ہے جسکے تحت جنوبی سرحد سے براستہ میکسیکو سے آنے والے تارکین وطن بشمول افغان باشندے بھی متاثر ہوسکتے ہیں جنکو امریکہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عارضی طور رہنے کی اجازت حاصل ہے۔
اسطرح ٹرمپ کی منصوبہ بندی میں بڑے پیمانے پر آئل اور گیس کی ڈرلنگ کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔ وہ پہلے دن ہی کلین انرجی کی پالیسیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں، جنہیں وہ ”گرین نیو ڈیل کی دھوکہ دہی“ کہتے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ان اقدامات سے افراطِ زر پر قابو پایا جا سکے گا اور ایندھن کی قیمتوں میں کمی آئے گی جبکہ ماحولیاتی ماہرین نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
ایک اور دھماکہ خیز اعلان، جس نے واشنگٹن کے حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے، وہ خصوصی وکیل جیک اسمتھ کی برطرفی ہے، جو ٹرمپ کے خلاف جنوری 6 کی بغاوت حملے اور خفیہ دستاویزات کے مقدمات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے ان تحقیقات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حلف لینے کے بعد پہلے دن ہی جیک اسمتھ کو دو سیکنڈ میں فارغ کردیں گے۔ ٹرمپ نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیپٹل ہل پر حملے میں ملوث افراد کو عام معافی دیں گے جنہیں وہ سیاسی قیدی قرار دیتے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے 6 جنوری 2021 کے حملے میں ملوث بعض افراد کو معاف کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ وہ ان ایک ہزار 400 سے زائد فسادیوں میں سے کس کو معافی دیں گے۔ تاہم ٹرمپ نے کہا ہے کہ پہلے دن ہی ان کے کیسز کا جائزہ لیا جائے گا اور میں معافی ناموں پر دستخط کروں گا۔
ٹرمپ نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ تعلیمی نظام میں اصلاحات کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں کریٹیکل ریس تھیوری اور ٹرانس جینڈر طلبا کے حوالے سے پالیسیوں کو ختم کریں گے۔
ان کے مطابق وہ اسکولز کے لیے فنڈنگ کو ان پالیسیوں سے مشروط کریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ یوکرین جنگ کا خاتمہ کرینگے، انکا دعویٰ ہے کہ وہ یوکرین میں جاری جنگ کو 24 گھنٹوں میں ختم کر سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ وعدہ حقیقت میں یکطرفہ طور پر پورا کرنا ممکن نہیں لیکن وہ روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات کی کوشش کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ کی ان دھمکی آمیز اور دھماکہ خیز وعدوں نے ایک جانب ان کے حامیوں کو متحرک کرکے ان میں جوش پیدا کر رکھا ہے تو دوسری جانب انکے مخالفین میں شدید تشویش پیدا ہوگئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ان اقدامات پر عمل درآمد ہوتا ہے تو امریکہ کو نہ صرف داخلی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کیا ٹرمپ واقعی پہلے دن سے ہی امریکی سیاست کو ایک نئے اور جارحانہ دور میں داخل کریں گے؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔