مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ مشہور صحابہؓ میں سے ہیں۔ یہ یہودیوں کے بڑے علماء میں سے اور تورات کے بڑے عالم تھے ، حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے ، انہوں نے رسول اللہ ﷺکی شخصیت کے بارے میں تورات میں بہت کچھ پڑھا تھا، کیوںکہ نبی کریم ﷺکے بارے میں تورا ت اور انجیل میں واضح طور پر یہ درج تھا کہ آخری نبی مکہ مکرمہ میں مبعوث ہوں گے اور وہاں سے مدینہ منورہ ہجرت کریں گے ، اس کے علاوہ آپﷺ کی بہت سی صفات ان کتابوں میں موجود تھیں۔
حضرت عبداللہ بن سلام ؓ حضرت موسی علیہ السلام پر بھی ایمان رکھتے تھے ، بعد ازاں یہ نبی کریم ﷺپر بھی ایمان لائے۔ ایسے افراد کے لیے نبی کریم ﷺنے دگنے اجر کا ذکر فرمایا ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ چند افراد ایسے ہیں کہ ان کے لیے اللہ کے ہاں دو اجر ہیں ، ان لوگوں میں سے ایک شخص وہ ہے کہ جو اہل کتاب میں سے ہو ، اور اپنے پیغمبر پر بھی ایمان لایا ہو اور نبی کریم ﷺپر بھی ایمان لایا ہو۔ بخاری شریف میں ہی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے حضرت عبداللہ بن سلامؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: عبداللہ بن سلامؓ اہلِ جنت میں سے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے سنن ترمذی میں ایک روایت ہے ،جس میں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺجب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے توسارے لوگ دوڑتے ہوئے آپ ﷺکی طرف آئے اور مدینہ میں ہر جانب یہ مشہور ہوگیا کہ نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے ہیں، میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا اور میں نے بھی چاہا کہ میں بھی اس آخری نبی کی زیارت کرسکوں۔ چونکہ یہ پہلے سے ہی نبی کریم ﷺکے بارے میں تورات میں ساری نشانیاں اور علامات پڑھ چکے تھے۔ اس لیے انہیں شوق بھی زیادہ تھا۔
چناںچہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے روئے انور کو دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ آپ ﷺکا یہ چہرہ ٔاقدس کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔حضور ﷺ کا چہرۂ انور چمکتا دھمکتا،نور سے منور اور حق وصداقت آپ ﷺکےچہرہ ٔاقدس سے عیاں تھے،ترمذی شریف میں ہے کہ آپ ﷺکا چہرۂ انور یوں چمکتا دمکتا تھا جیسے چودہویں رات کا چاند چمکتا ہے۔ حسن وجمال اور جاہ و جلال میں آپ ﷺکی شخصیت بے مثال تھی۔
حضرت عبداللہ بن سلام ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺسے سب سے پہلی گفتگو جو میں نے سنی، وہ یہ تھی کہ آپ ﷺنے تین باتیں ارشاد فرمائیں، اور فرمایا کہ یہ تین اعمال سلامتی کے ساتھ جنت میں داخلے کا سبب ہیں :پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ:
1۔ سلام کو پھیلاؤ:۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے جو جاہلیت کا زمانہ تھا ،اس میں بھی لوگ کچھ جملے ملاقات کے وقت آپس میں محبت والفت کے اظہار کے طور پر کہا کرتے تھے ،جیسے ایک روایت حضرت عمران بن حصین ؓ سے ہے کہ ہم زمانہ جاہلیت میں کہا کرتے تھے کہ اللہ تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈا کرے، تمہاری صبح خوش گوار اور اچھی ہو ، پھر اسلام آیا تو دین اسلام میں ہمیں ان الفاظ کے استعمال سے منع کردیا گیا اور ان کے بجائے سلام کرنے کا حکم دیا گیا۔ السلام علیکم سے سے بہتر کلمہ محبت و تعلق کےاظہار کا نہیں ہوسکتا۔چھوٹوں کے لیے اس میں شفقت ،پیار ،محبت اور بڑوں کے لیے اس میں تعظیم ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس جملے پر ایک مسلمان تیس نیکیوں کا مستحق بنتا ہے۔ حضرت عمران بن حصین ؓ سے ہی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺکی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے یوں سلام کیا" السلام علیکم" آپ ﷺنے فرمایا: یہ آدمی دس نیکیوں کا مستحق بن گیا، پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کے الفاظ سے سلام کیا،آپ ﷺنے فرمایا: یہ آدمی بیس نیکیوں کا مستحق بن گیا، پھر تیسرا شخص آیا اور اس نے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" کے ذریعے سلام کیا ، نبی کریم ﷺنے فرمایا: اس آدمی کو تیس نیکیاں حاصل ہوگئیں۔
امام مالک ؒ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓکے بارے میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ اپنے ایک ساتھی طفیلؓ کو لےکر بازار جاتے، اور جو شخص انہیں نظر آتا اسے سلام کرتے اور واپس آجاتے ، ایک دن طفیلؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے دریافت کیا کہ آپ بازار جاکر نہ کچھ خریدتے ہیں ، نہ کسی دکان پر کھڑے ہوتے ہیں، پھر بازار کیوں جاتے ہیں؟حضرت عبداللہ بن عمر ؓنے جواب دیا :ہم اس غرض سے بازار جاتے ہیں کہ جو بھی سامنے آئے ،اسے سلام کرکے کم از کم دس نیکیاں کماکر اللہ کی رحمتیں برکتیں حاصل کریں۔
نبی کریم ﷺ نے ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ جب بھی ہم اپنے گھر میں داخل ہوں توسلام کریں، یہ سلام کرنا برکت کا ذریعہ ہوگا۔ ترمذی شریف میں حضرت انس ؓ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺنے مجھے نصیحت فرمائی تھی کہ: اے بیٹے، جب بھی اپنے گھر والوں پر داخل ہو ، یعنی جب بھی گھر میں قدم رکھو تو سلام کیا کرو، یہ تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے لیے برکت کا ذریعہ ہوگا۔
دوسری بات نبی کریمﷺ نے یہ ارشاد فرمائی کہ :
2۔ کھانا کھلاؤ:۔
لوگوں کو کھانا کھلاؤ،یعنی معاشرے میں جولوگ مستحق ہوں ، غریب ہوں ، ان کے ساتھ ہمدردی رکھو، انہیں کھانا کھلاؤ، اس طرح تم ان لوگوں کی دعاؤں کے مستحق بن جاؤ گے۔ غریبوں کو کھانا کھلانا اللہ کے نزدیک بڑا پسندیدہ اور محبوب عمل ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کی صفات میں سے ایک صفت اور اچھائی یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں، انتیسویں پارے کی سورۂ دھر میں ارشاد ہے :اہلِ ایمان اللہ کی محبت میں مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔لہٰذا ہمیں معاشرے میں اپنے اردگرد لوگوں پر غور کرنا چاہیے، جہاں کوئی غریب ، مسکین ، نادار آدمی ہو، اس کے کھانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
نبی کریم ﷺنے بطور خاص پڑوسیوں کا خیال کرنے کا حکم دیا ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد فرمایاہےکہ وہ آدمی مجھ پر ایمان نہیں لایا، جو ایسی حالت میں اپنا پیٹ بھر کر رات کو سوئے کہ اس کے برابر میں رہنے والا اس کا پڑوسی بھوکا ہواور اس آدمی کو اس کے بھوکے ہونے کی خبر بھی ہو۔
ساتھ ساتھ ہمارے پیارے نبی ﷺنے ہمیں یہ تعلیم بھی دی ہے کہ جب کوئی آدمی سالن پکائے تو اسے چاہیے کہ سالن میں شوربہ زیادہ کرلے، تاکہ کچھ پڑوسیوں کو بھی بھیجا جاسکے۔ جو شخص غریبوں کے ساتھ تعاون کرتا رہتا ہے، ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے،اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کے دل کو نرم کردیتے ، دل کی سختی سے ایسے آدمی کو محفوظ فرماتے ہیں۔
نبی کریم ﷺنے تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ :
3۔ رات میں نماز پڑھو۔
جب لوگ سورہے ہوں، تم اس وقت اللہ کے سامنے کھڑے ہوجایا کرو، یعنی تہجد کی نماز کا اہتمام کرو۔ تہجد کی نما ز کی بڑی فضیلت ہے ، اور رات کے آخری حصے میں اللہ کے سامنے کھڑا ہونا بہت بڑی سعادت کی بات ہے، احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اور بندوں کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں۔
نبی کریم ﷺنے رات کے آخری حصے میں تہجد کی نماز کی بڑی ترغیب دی ہے، ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ رات کے آخری حصے میں بندہ سب سے زیادہ اپنے رب کے قریب ہوتاہے، لہٰذا تم ان بندوں میں شامل ہوجاؤ جو اس وقت اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔
ایک روایت میں نبی کریم ﷺنے تہجد کی چار خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ارشاد فرمایاکہ تم ضرور تہجد پڑھا کرو، اس لیے کہ یہ تہجد کی نمازتم سے پہلے بھی نیک لوگوں کا طریقہ اور ان کی عادت رہی ہے۔ دوسری خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ تہجد کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل ہوگا۔
تیسری خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ تہجد کی نماز آدمی کو گناہوں سے بچاتی اور روک دیتی ہے اور چوتھی خصوصیت یہ ارشاد فرمائی کہ یہ گناہوں کے برے اثرات کو مٹانے والی ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو آدمی ان تین اعمال کا اہتمام کرے گا، وہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعمال کا یقین اور اہتمام نصیب فرمائےاور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخلہ ہمارے لیے آسان فرمائے۔(آمین)