• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک شخص نے مسجد کے لیے جگہ وقف کی، اب جو لوگ مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں ،وہ یہ کہتے ہیں کہ نیچے مدرسہ کے لیے کمرے بنائیں اور اوپر مسجد بناتے ہیں، تو ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں ہے ؟،(قاری عنایت الرحمن نعیمی، کراچی)

جواب: صاحبین(امام محمد اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ) کے مطابق جہاں پر ایک مرتبہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کر لی گئی، تو اب اس مسجد کی مسجدِیَّت (مسجد ہونا)مکمل ہوگیا اور وہ جگہ زمین سے آسمان تک مسجد ہو گئی ،اب اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے، مسجد زمین کی تہہ سے آسمان تک مسجد ہی کے حکم میں ہوتی ہے، تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے :’’مسجد آسمان کی بلندی تک اور اسی طرح ’’تَحْتَ الثَّریٰ ‘‘ تک مسجد ہی ہے ،’’بیری ‘‘ میں’’اسبیجابی ‘‘سے اسی طرح منقول ہے ، (جلد: 2 ، ص: 370-371)‘‘۔

کسی جگہ کو مسجد کے لیے وقف کیے جانے سے ہی وقف مکمل ہوجاتا ہے اور لوگوں کو وہاں اذان، نماز اورباجماعت نمازکی اجازت دینے سے ہی اس جگہ پر مسجدِ شرعی کا اطلاق ہو جاتا ہے، مسجدِشرعی ہونے کے لیے تعمیرات کا ہونایا بنیاد پڑنا ضروری نہیں ہے، تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے :ترجمہ: ’’کسی شخص کے یہ کہنے سے کہ میں نے زمین کے اس حصے کو مسجد بنا دیا ہے یا عملاً اس میں نماز پڑھی جارہی ہے، وہ زمین اس کی ملکیت سے نکل جائے گی،(ردالمحتارجلد 6ص:426 ،بیروت )‘‘۔

علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’مفتیٰ بہٖ قول کے مطابق اگر مسجدیت مکمل ہو گئی کہ زبان سے (اس جگہ کو مسجد قرار دے دیا) یا صاحبین کے نزدیک وہاں نماز پڑھ لی گئی ہو،’’فتاویٰ تتارخانیہ ‘‘کی عبارت یہ ہے:’’جب مسجد کی عمارت بنائی(اور) اس کو لوگوں کے حوالے کردیا ،پھر آکر(اس میں کوئی اورچیز) تعمیر کرنا چاہتا ہے، تواس کو اجازت نہیں دی جائے گی‘‘ ، (ردالمحتار، جلد:4،ص: 358)‘‘۔

پس اگر اس وقف شدہ جگہ کی مسجدیت تمام ہوگئی ہے، تو نیچے مدرسے کے لیے کمرے تعمیر نہیں کیے جاسکتے ، ہاں! اگر وقف کرتے وقت یہ نیت تھی ،تو درست ہے، البتہ مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ نمازوں کے اوقات کے دوران شور وشغب نہ ہو اور مسجد میں آلودگی بھی نہ ہو تو ناظرہ وحفظِ قرآن کریم کی کلاسیں لگائی جاسکتی ہیں۔(واللہ اعلم بالصواب )

اقراء سے مزید