• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈپریشن، مایوسی، نااُمیدی کا تدراک و سدِباب

ڈاکٹر نعمان نعیم

مایوسی اور نااُمیدی عدم اطمینان کا ایسا جذبہ ہے جو توقعات یا امیدوں کی ناکامی کی وجہ سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ مایوسی کا شکار شخص کی نظر محض منفی نتیجے پر ہی مرکوز ہوتی ہے۔ یہ نفسیاتی تناؤ کا سبب ہوتا ہے۔ انسان کی فطرت میں منفی سوچ، مثبت سوچ کے مقابلے میں زیادہ غالب ہوتی ہے۔ 

یہی منفی خیالات مایوسی کو جنم دیتے ، اسے پروان چڑھاتے ہیں، یہاں تک کہ انسان قنوطیت، مایوسی ،عدم اطمینان اور اضطراب کی ایک جیتی جاگتی مثال بن جاتا ہے۔ انسان کی یہی منفی سوچ والی عادت اس مشینی دور میں زیادہ شد ومد کے ساتھ ظاہر ہونے لگی ہے۔ 

قدیم دور میں خودکشی لفظ شاذ ونادرہی سنائی دیتا تھا، آج یہ ہر دن خبروں میں آتا ہے۔ ڈپریشن نام کی ایک نفسیاتی بیماری بھی اتنی عام ہوسکتی ہے، کسی زمانے میں اس کاتصور بھی محال تھا۔ اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں انسان کا رشتہ جس طرح اپنے خالق ومالک سے کمزور ہوتا جارہا ہے، اس کے نتیجے میں ناامیدی اور مایوسی سارے معاشرے میں اپنے پاؤں پسارتی ہی جارہی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کےفضل واحسان سے خود کو محروم سمجھنا ’’مایوسی ‘‘ہے۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا: ’’ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ ‘‘ (سورۃ الزمر:۵۳)ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’اپنے ربّ کی رحمت سے کون ناامید ہو مگر وہی جو گمراہ ہوئے۔‘‘(سورۃ الحجر: ۵۶)ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: ’’اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے ،مگر کافر لوگ۔‘‘ (سورۂ یوسف: ۸۷)

حدیث مبارکہ میں ہے، مایوسی کبیرہ گناہ ہے: آپ ﷺسے سوال کیا گیا: ’’کبیرہ گناہ کون سے ہیں ؟‘‘ تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ َ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، اس کی رحمت سے مایوس ہونا اور اس کی خفیہ تدبیر سے بے خوف رہنا ، یہی سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو کر گناہوں میں مشغول ہوجانا ناجائز وحرام اور کبیرہ گناہ ہے۔

مایوسی کا پہلا سبب جہالت ہے کہ بندہ اپنی جہالت اور کم علمی کے سبب رحمت الٰہی سے مایوسی جیسے موذی گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دنیوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم بھی حاصل کرے، قرآن وحدیث کا علم حاصل کرے، جہنم میں لے جانے والے اعمال اوران پر ملنے والے عذاب پر غور وفکر کرے، تاکہ اس کے دل میں خوف آخرت پیدا ہو، جنت میں لے جانے والے اعمال اور ان پر ملنے والے عظیم اجروثواب پر نظر رکھے تاکہ اللہ کی رحمتِ کاملہ پر اس کا یقین مزید پختہ ہوجائے اور مایوسی اس سے دور بھاگ جائے۔

مایوسی کا دوسرا سبب بے صبری ہے۔ کسی آزمائش یا مصیبت پر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واویلا کرنے سے رحمتِ الٰہی سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت ڈالے کیوں بے صبر ی کی وجہ سےنکلنے والے کلمات بسا اوقات ’’کفریات‘‘پر مشتمل ہوتے ہیں جو ایمان کو برباد کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ 

کسی بھی تکلیف یا مصیبت پر بندہ یہ ذہن بنائے کہ اللہ نے مجھے اس آزمائش میں مبتلا کیا ہے تو میں اس پر بے صبری کا مظاہرہ کرکے اجر وثواب کیوں ضائع کروں ؟ بلکہ میں اس کی رحمتِ کاملہ پر نظر رکھوں اور اس مصیبت یا پریشانی سے نجات کے لیے اس کی بارگاہ میں التجا کروں۔

مایوسی کا تیسرا سبب دوسروں کی پُر آسائش زندگی پر نظر رکھنا ہے۔ جب بندہ کسی کی پُرآسائش زندگی پر غور وفکر کرتا ہے تو اسے اپنی زندگی پر سخت تشویش ہوتی ہے یوں بندہ رحمت الٰہی سے مایوس ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دوسروں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنی زندگی پر غور وفکر کرے ، ربّ کا شکر ادا کرتے ہوئے قناعت اختیار کرے،یہ ذہن بنائے کہ جس ربّ نے اسے پٍُرآسائش زندگی عطا فرمائی ہے یقیناً وہ رب مجھے ویسی ہی زندگی عطا کرنے پر قادر ہے لیکن یہ اس کی مشیت ہے اور میں اس کی مشیت پر راضی ہوں۔ 

نیز بندہ اس بات پر بھی غور کرے کہ جو شخص دنیا میں جتنی بھی پُرآسائش زندگی بسر کرے گا ہوسکتا ہے کل بروز قیامت اسے اتنا ہی سخت حساب وکتاب دینا پڑے، لہٰذا پرآسائش زندگی کی خواہش کرنے کے بجائے سادہ طرزِ زندگی اپنانے ہی میں عافیت ہے۔

مایوسی کا چوتھا سبب بری صحبت ہے۔جب بندہ ایسے دنیا دار لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے جو خود مایوسی کا شکار ہوتے ہیں تو ان کی صحبت کی وجہ سے یہ بھی مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ سب سے پہلے ایسے لوگوں کی صحبت ترک کرکے نیک پرہیزگار اور متقی لوگوں کی صحبت اختیار کرے، اللہ والوں کے پاس بیٹھے تاکہ مایوسی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں اور رحمت الٰہی پر یقین کی بارش نازل ہو۔

جب ہم سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ دین کی خاطر تمام نبیوں میں سب سے زیادہ ہمارے پیارےنبی کریم ﷺ کو ستایا گیا، تکلیف دی گئی، وہیں دوسری طرف صحابہ کرامؓ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم نے حضرت محمدﷺ سے زیادہ متبسم شخصیت کوئی اورنہیں دیکھی۔ 

پوری سیرت النبی ﷺ میں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوئے ہوں۔ بلکہ آپﷺ نے ہمیشہ کوشش کی کہ اللہ کی رحمت سے لو لگی رہے اور مایوسی مسلمانوں کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائے۔ 

یہی وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو ایک مسلمان کے دل میں ہمیشہ امید کا دیا روشن کرنے کے لئے کافی ہیں کہ حالات چاہے کچھ ہوں ،انسان امید کا دامن نہ چھوڑے اور اپنے رب سے اس بات کی توقع رکھے کہ جو ہوگا خیر ہوگا۔ بہت سارے لوگ اس موقع پر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم پر مصیبت آئی ہی اتنی بڑی ہے کہ اب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جاتا ہے۔ 

اس موقع پر جہاں اسلامی تعلیمات ہمیں مصیبت کے اولین مرحلے ہی سے صبر کا دامن تھام لینے کی تاکید کرتی ہیں، وہیں حوصلہ بڑھانے کے لئے یہ خوشخبری بھی دیتی ہیں کہ انسان کی جتنی بڑی آزمائش ہوگی، اتنا ہی بڑا اجر اس پر(صبر کرنے پر) ملے گا۔

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں انسانوں کو مختلف پیرایوں اور انداز میں سب سے زیادہ اللہ کی رحمت کی امید دلائی گئی ہے۔ رحمت اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے جس سے اس نے اپنے آپ کو متّصف کیا ہے اور یہ وہ صفت ہے جو کائنات کی ہر چیزپر حاوی ہے۔ پوری کائنات رحمتِ الٰہی کی مظہر ہے۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ’’میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے‘‘ (سورۃالاعراف، 156) اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول ﷺ کو سراپا رحمت بنا کر بھیجا (سورۃالانبیاء،107) اسی طرح شرعی احکامات میں بھی رحمت کی صفت کو نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔

قرآن مجید میں بڑے سے بڑے گناہ گار کو حتیٰ کہ خدا کو نہ ماننے والوں کو بھی اس کی رحمت کی امید دلا کر خدا کے قریب ہوجانے اور اس کی فرماں برداری اختیار کرنے کی طرف بلایا گیاہے۔ اللہ کی طرف لوٹ آنے پر پچھلے تمام گناہ معاف کر دینے کی نوید سنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے نبی ﷺآ!پ کہہ دیجیے اے میرے وہ بندوجو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہو تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بےشک، اللہ سارے گناہ معاف فرمادے گا، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘ (سورۃالزمر، 53) 

اس آیت مبارکہ کو قرآنِ مجید کی امید بھری آیت کہا گیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو چاہے وہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں، اپنا بندہ کہا ہے اور چاہے وہ بڑے سے بڑا گناہ گار ہی کیوں نہ ہو، صرف ایک دو گناہ کرنے والا نہیں بلکہ گناہوں میں حد پار کر دینے والے کو بھی اس آیت میں مخاطب کیا گیا ہے۔ سب کو یہ امید دلائی کہ تم اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک وہ تمام گناہ بخش دے گا۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں جو اس کے عرش کے پاس رکھی ہوئی ہے اپنے بارے میں لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی (صحیح بخاری، 7404) یعنی اللہ تعالیٰ کو انسانوں کو سزا دے کر نہیں بلکہ انہیں معاف کرکے خوشی ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کتنی محبت فرماتا ہے اور انہیں اپنی رحمت کی کتنی امید دلاتا ہے۔ ایک حدیث مبارک میں اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو واضح کیا ہے۔ 

حضرت عمر ؓ یہ حدیث روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے پاس کچھ قیدی لائے گئے۔ ان قیدیوں میں سے ایک عورت ادھر سے ادھر دوڑتی پھر رہی تھی۔ جیسے ہی اسے ایک بچہ نظر آیا اس نے اس بچے کو پکڑ کے اپنے سینے سے لگالیا اور دودھ پلانے لگی۔ 

رسول اللہ ﷺنے صحابۂ کرامؓ سے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟صحابۂ کرام ؓ نے عرض کی نہیں۔ آپﷺ نے ارشادفرمایا: یہ عورت جتنی اپنے بچے پر مہربان ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے (صحیح بخاری ، 5999)۔ یہ حدیث رب کے نافرمانوں کو اس کی رحمت کی امید دلاتی ہے اور انہیں رب کی طرف لوٹ جانے کی ترغیب دیتی ہے۔

اسی طرح ایک حدیث قدسی ہے (وہ حدیث جس میں رسول اللہ ﷺ رب سے روایت فرماتے ہیں) جسے حضرت انس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا وہ کہتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امیدیں وابستہ رکھے گا تو میں تجھے معاف کرتا رہوں گا۔ اے ابن آدم! تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں اور تومجھ سے معافی مانگے تو میں تجھے معاف کردوں گا۔ اے ابن آدم! اگر تو اتنے گناہ لے کر آئے کہ روئے زمین بھر جائے تو میں تب بھی تیری مغفرت کر دوں گا،بشرطیکہ تو نے شرک نہ کیا ہو۔ (ترمذی، 3540)۔

اسی لیے اللہ تعالیٰ سے اچھاگمان رکھنا واجب ہے۔ بندہ رب کے بارے میں جیسا گمان کرے گا اللہ تعالیٰ اسی طرح اس سے برتاؤ کرے گا۔ حدیث قدسی ہے: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے میرے بارے میں گمان کے مطابق ہوتا ہوں۔ (صحیح بخاری، 7505) ہمیں اس کی رحمت سے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے، اگر وہ چاہے تو کسی کے ایک گناہ پر ایسی پکڑ کرے کہ ساری نیکیاں کم پڑ جائیں اور اگر وہ چاہے تو کسی کو ایک نیکی پر اپنی رحمت سے ایسا نوازے کہ بڑے بڑے گناہوں سے درگزر کر دے۔ یہ رب کی رحمت ہی ہے کہ وہ گناہوں پر فوراً انسان کی پکڑ نہیں کرتا ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمیشہ مثبت سوچنے، مایوسی سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کا سہارا لینے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)