پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں اس وقت تاریخی تیزی کا رحجان جاری ہے۔انڈیکس تقریباہر روز ایک نئی حد عبور کر رہا ہے۔ گزشتہ روز اس نے ایک نیا ریکارڈ بنا ڈالا۔ انٹرا ڈے ٹریڈنگ کے دوران کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس پہلی بار 95 ہزار 82 پوائنٹس کی نئی بلندی کو چھو گیا۔ سرمائے کا مجموعی حجم بڑھ کر 122 کھرب چھ ارب 90 کروڑ 91 لاکھ روپے ہو گیا۔ تیس ارب روپے مالیت کے 89 کروڑ 31 لاکھ 70 ہزار حصص کے سودے ہوئے۔ مارکیٹ میں آنے والی تیزی کی بڑی لہر کو معاشی اشاریوں میں بہتری سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ شرح سود میں کمی اور فکس انکم کا پیسہ شیئرز میں آنے پر سرمایہ کار سرگرم ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں اضافے سے جہاں ملکی معیشت کی عکاسی ہو رہی ہے وہاں یہ سوالات بھی سامنے آئے ہیں کہ کیا اسٹاک مارکیٹ تیزی کے اس رحجان کو برقرار رکھ پائے گی؟ صنعتی شعبہ مصائب میں گھرا ہوا ہے ،عام آدمی مشکلات کا شکار ہے اور گیس و بجلی کے بلوں نے انہیں نڈھال کر رکھا ہے ایسے میں اسٹاک مارکیٹ کی تیزی کا عام آدمی کی معاشی صحت پر کوئی اثر پڑا ہے؟ ناقدین کا کہنا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کی تعداد اڑھائی لاکھ کے قریب ہے جو چوبیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں کچھ بھی نہیں۔ کم و بیش پانچ سو کمپنیاں متحرک ہیں اور مارکیٹ کا فائدہ وہی سمیٹتی ہیں۔ عام آدمی کو اس کا براہ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ یہ تاثر بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب مارکیٹ انتہائی بلندی پر پہنچ جاتی ہے تو بڑے سرمایہ کار اچانک سرمایہ نکال لیتے ہیں جس سے مارکیٹ کریش ہو جاتی ہے اور چھوٹے شیئر ہولڈرز کے اربوں روپے ڈوب جاتے ہیں۔تجزیہ کاروںکے خیال میں مارکیٹ ابھی مزید اوپر جا سکتی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ سے حاصل ہونے والے سرمایہ کو منافع بخش زون میں استعمال کر کے معاشی دبائو کم کیا جا سکتا ہے۔