تفہیم المسائل
سوال: عبد الستار مرحوم کے چھ بیٹے(زید ،عمرو، بکر ، خالد ، موسیٰ ، کاظم ) دو بیٹیاں (فاطمہ ، ہند)اورایک زوجہ (سارہ)ہے۔ عبد الستار کی ملکیت میں دکان اورمکان تھا،عبد الستار نے اپنی دکان میں وقتاً فوقتا ًتین بڑے بیٹوں (زید ،عمرو، بکر) کو کام میں شامل کیا۔کا روبار میں ترقی ہوئی تو فیکٹری لے لی، جس میں کام کا ذمہ عمرو کو دیا اور چوتھے بیٹے خالد کو بھی ساتھ لگا دیا۔
اسی کاروبار میں کچھ عرصہ بعد موسیٰ اورکاظم کو بھی شامل کر لیا گیا، یعنی تمام بیٹے والد صاحب کی سرپرستی میں والد صاحب کے کاروبار میں کام کر رہے تھے۔2004ء میں عمرو اور خالد کے مابین اختلاف ہوا تو عمرو نے خالد کو فیکٹری سے نکال دیا ۔عبدالستار نے خالد کو اپنے ساتھ دکان پرہی بلا لیا۔
چند سالوں کے بعد خالد نے اسی کاروبار کا مال ایکسپورٹ کرنا شروع کیا اور کاظم کو بھی ساتھ شامل کر لیا ۔2013ء میں خالد کا دیگر بھائیوں سے لین دین کے معاملے میں تنازع ہوا تو والد (عبد الستار)نے تمام بیٹوں کو پابند کیا کہ آپس کے معاملات نقد کریں گے اور تمام بھائی والد صاحب کو حساب دینے کے پابند ہوں گے ،کیونکہ تمام کاروبار والد صاحب کی ملکیت تھا ۔عبد الستار کا 2019ء میں انتقال ہو گیا۔اب معلوم یہ کرنا ہے :
سوال: 1۔ خالد کا دعویٰ ہے کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد خالد نے جو کاروبار سے نفع کمایاہے وہ خالد کا ہی ہے ، جبکہ مرحوم والد نے اپنی زندگی میں کسی کوبھی کسی شے کا مالک نہیں بنایا تھا ۔ جو مال خالد نے کاروبار میں لگایا اور اس سے جو نفع حاصل کیا،وہ مال وراثت میں شامل ہو گا یا خالد کی ملکیت ہو گا ؟
سوال:2۔ والد صاحب کی زندگی میں دو بھائیوں نے والد صاحب کے علم میں لائے بغیر کاروبار میں سے پیسے نکال کر دوسرے کاروبار میں لگائے، اس کاروبار سے حاصل ہو نے والا نفع مال وراثت ہو گایا نہیں ہو گا؟ (عبداللہ ، کراچی )
جواب: شرعی حکم یہ ہے کہ باپ کی زندگی میں ان کی جو جائیداد تھی اور ان کی وفات کے بعد ترکہ تقسیم کے بغیر تمام بیٹے اُس میں مل کر کام کرتے رہے، وہ مال میں شریک نہیں ہیں ، تمام مال باپ کی ملکیت ہوتا ہے اور باپ کے انتقال کے بعد تمام وارثوں کا ہے ،اُس میں جتنا اضافہ ہوگا،وہ تمام ورثاء کا ہوگا، اگرچہ کاروبار چلانے والے چند افراد ہوں اور باقی وُرَثاء عملی طورپر کام نہ کر رہے ہوں، تنویرالابصار مع الدر المختار میں ہے :
ترجمہ:’’ اکثر کاشتکار اور دیگر (پیشوں سے وابستہ ) لوگوں میں یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی شخص فوت ہوجاتا ہے ،تو اُن کی اولاد ترکے کو تقسیم کئے بغیر اِسی طرح قائم رکھتی ہے اور وہ اُس زمین میں کھیتی باڑی، خریدو فروخت ،قرض کالین دین اور دوسرے اُمور جاری رکھتے ہیں اور کبھی فوت ہونے والے کا بڑا بیٹا تمام کاموں کی نگرانی کرتا ہے اور چھوٹے اُس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ،یہ سب ایک طرح سے غیر رسمی تفویضِ اختیار ہوتا ہے (یعنی یہ وہا ں کے لوگوں کا عرف یاعادت ہے) ‘‘، آگے چل کر لکھتے ہیں:
ترجمہ:’’ پس جب ان کی سعی ایک ہو اور ہر ایک کی محنت کی کمائی جدا جدا نہ ہو،تو سب پورے مال میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، اگر چہ ذہنی استعداد اور عمل کی مقدار ایک جیسی نہ ہو ، ’’فتاویٰ خیریہ‘‘ میں اِسی طرح کا فتویٰ دیاہے ۔ اور ان میں سے اگر کسی نے اپنی ذات کے لیے کچھ خریدا تو وہ اُس کا مالک ہوجائے گا اوراگر اُس نے مشترکہ مال سے قیمت دے کر خریدا تھا ،تو اس میں شرکاء کا جو حصہ صرف ہوا،اس کا وہ ضامن ہوگا، (جلد6،ص:372)‘‘۔
خالد نے والد کے کاروبار سے حاصل ہونے والے نفع یا کاروبار کے اصل سرمائے سے /والد صاحب کے علم میں لائے بغیرکا روبار میں سے پیسے نکال کر دوسرے کا روبار میں لگایا ، یہ سب ترکے میں شامل ہوگا اور تمام ورثاء کے درمیان تقسیم کیاجائے گا۔
اُس آمدنی سے حاصل شدہ مال تمام ورثاء کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا اور اگر کاروبار چلانے والے کسی ایک فرد نے اُس سے مزید جائیداد بنائی ، تو اگر وہ جائیداد اُس نے اپنے حصے سے بنائی تو وہ اُس کا مالک ہوگا اور اگر مشترکہ مال سے بنائی ،تو جتنا حصہ ورثاء کا اس میں شامل کیا ، اُس کا ضامن ہوگا اور اس حصے کی ادائی ورثاء کو کرے گا۔