تفہیم المسائل
قرآن کریم میں سورۃ النّمل آیات 60-64میں اللہ تعالیٰ کی شانِ خلّاقی اور قدرت وجلالت کی بابت منکرین کے عقائد کا رَدّ استفہامی انداز میں کرتے ہوئے پانچ مقامات پر فرمایا ، یہ سب کچھ اللہ قادر وقیوم کی قدرت کے مظاہر ہیں، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور ’’اِلٰہ ‘‘بھی ہے، جس کی یہ شان ہو، ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں ہے۔
اسی طرح قرآن کریم میں جابجا منکرینِ آخرت ومنکرینِ حیات بعدالموت کے عقائد باطلہ کا ذکر کرکے اُن کا رَدّ فرمایا۔ ہم کُتب فقہ میں مثلاً :طلاق کے مسائل پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، اس میں اگر بطور مثال کسی نے اپنی بیوی کو کہا:’’ طلّقتُکِ‘‘ (میں نے تجھے طلاق دی) تو طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ یہ بطور انشاء نہیں ہوتا بلکہ بطور حکایت یا تفہیم مسئلہ کے لیے مثال بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے۔
آج کے دور میں بھی علم مناظَرہ میں مذاہب وفِرَق باطلہ کے رَدّ کے لیے ان کے عقائد باطلہ کا حکایتاً اور تمثیلاً بیان کرکے اُن کا رَدّ کیا جاتا ہے، یہ شِعار درست ہے اور اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، کیونکہ علم مناظرہ اور رَدّ عقائدِ باطلہ وفاسدہ طالبانِ دین کو اس مرحلے پر پڑھائے جاتے ہیں ،جب اُنہیں عقائدِ حقّہ میں تَصَلُّب ورسوخ حاصل ہوجاتا ہے اور ان کے بہکنے اور بھٹکنے کا اندیشہ نہیں رہتا، بلکہ یہ علم ان میں حق کی حقانیت اور باطل کے بُطلان کے لیے مزید ثقاہت و رسوخ پیدا کرتا ہے، البتہ مناظرہ کے کچھ آداب واصول بھی ہیں، جو فنّ مناظرہ میں پڑھائے جاتے ہیں کہ فریقِ مخالف اور خَصم کا رَدّ تب مؤثر ہوگا، جب باہم طے کرلیا جائے کہ فریقین کے درمیان مُسلّمات کیا ہیں، مثلاً : (ا) منکرِ حدیث کا رَدّ حدیث سے نہیں کیا جائے گا، بلکہ قرآن سے کیاجائے گا جو فریقین کے درمیان یکساں طور پر مُسلم ہے اور منکرِ قرآن، منکرِ توحید، منکرِ وجودِ باری تعالیٰ اور حیات بعدالموت وآخرت کے منکر کا رَدّ دلائل عقلیہ سے کیا جائے گا، کیونکہ پھر استدلال کی یہی مشترکہ اساس باقی رہ جاتی ہے اور قرآن کریم نے توحید اورمنکرینِ آخرت کے رَدّ میں اِسی شِعار کو اختیار کیاہے۔
قرآن نے ایک اصول یہ بھی بتایا ہے : اورجن (باطل) معبودوں کو وہ اللہ کے مقابل پوجتے ہیں ،انہیں برانہ کہو کہ مبادا وہ نادانی میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی شان میں کوئی نازیبا کلمہ نہ کہہ دیں،(سورۃالانعام:108)‘‘۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر مذاہب ِ باطلہ سے مناظرہ یااُن کا رَدّ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے بجائے اپنی علمی برتری اور تَعلّی ثابت کرنے اور اپنی جلالتِ علمی کا دبدبہ قائم کرنے کے لیے کیاجائے تو اُس کے لیے حدیث میں بڑی وعید بھی آئی ہے۔
حضرت مالک بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ترجمہ: ’’جس نے (دین کا )علم اس لیے حاصل کیا کہ علماء پر اپنی برتری جتلائے یا بیوقوفوں پر حُجّت بازی کرے یا لوگوں کے رُخِ عقیدت کو اپنی جانب پھیر دے ،تویہ علم اسے جہنم میں داخل کرے گا ،( سُنن ترمذی: 2654)‘‘۔(واللہ اعلم بالصواب)
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
darululoomnaeemia508@gmail.com