• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اولیاء ولی کی جمع ہے، ولی کے لغوی معنی ہیں کسی کے قریب ہونا، اس جہت سے ولی دوست اور مدد گار کو کہتے ہیں۔ ان معنی کے اعتبار سے قرآن کریم نے اللہ اور انسان کا تعلق اس قسم کا قرار دیا ہے کہ جسے ہم عام طور سے رفاقت کا تعلق قرار دیتے ہیں ۔ اگر انسان احکامات خداوندی کے مطابق زندگی بسر کرے تو اللہ تعالیٰ خود اس کا رفیق ولی یعنی مددگار بن جاتا ہے۔ 

کیونکہ اطاعتِ خداوندی اور احکامِ الہٰی کی بجا آوری سے مومن کے ہاتھوں دین الٰہی کو بندوں تک پہنچانے اور اسلام کے نظام حیات کو انسانوں کی زندگیوں میں نافذ و غالب کرنے کے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے، اس طرح انسان اللہ کا ولی بن جاتا ہے۔ 

چناںچہ قرآن کریم نے ایک طرف "اللہ کو ایمان والوں کا ولی "کہا ہے فرمایا کہ " اللہ ایمان والوں کا دوست اور مددگار (یعنی ولی) ہے جو انہیں کفر اور گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور اسلام کی روشنی میں لے آتا ہے"(سورۃالبقرہ ۲۵۷) دوسری طرف ایمان والوں کو" اولیاء اللہ" کہا ہے ،" بے شک اللہ کے دوستوں (اولیاء اللہ) کو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے"۔ یہ (اولیاء اللہ) وہ لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور تقویٰ کی زندگی گزارتے ہیں" (سورۂ یونس ۶۲۔۶۳) 

یہاں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات بتادی گئی کہ یہ اولیاء اللہ وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں یعنی قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے قوانین کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں یعنی متقی ہوتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد ان اولیاء اللہ کی پہچان بھی بتا دی کہ ان کے لئے دنیا اور آخرت کی زندگی میں خوشخبریاں (بشارتیں) ہیں اللہ کی کہی ہوئی بات میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آتی، یہی تو (ان کی)بڑی کامیابی ہے" (سورۂ یونس۶۴)

معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کو اس دنیاء میں بھی خوش گواریاں یعنی قرب خداوندی اور پُرسکون و مطمئن زندگی حاصل ہوتی ہے اور آخرت کی زندگی میں بھی ان کے لئے جنتوں اور ان کی نعمتوں، شفاعت ِ رسول اور دیدار الٰہی کی بشارتیں ہیں۔ آخرت کی زندگی کو تو یہاں دیکھا نہیں جاسکتا، لہٰذا ان نعمتوں کے یقینی ہونے کی گارنٹی یا ضمانت یہ کہہ کر دے دی گئے کہ اللہ کا کہا ہوا تبدیل نہیں ہوتا۔ لیکن دنیا کی زندگی تو ہر ایک کے سامنے ہوتی ہے۔ 

لہٰذا اولیاء اللہ (ایمان والے)وہ ہیں، جنہیں زندگی کی شادابیاں، شادمانیاں اور سرفرازیاں حاصل ہوتی ہیں، وہ دنیا میں اللہ کے بندوں کی زندگیوں کو اس کے دین کے مطابق ڈھالنے اورزمین پر اسے غالب اور نافذ کرنے کی جدو جہد کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی رو سے اولیاء اللہ کے اس مختصر تعارف سے یہ بات واضح ہوئی کہ اولیاء اللہ لازمی ایمان والے یعنی کامل مومن ہوتے ہیں اور مومن ہونے کے ساتھ ساتھ متقی یعنی احکاماتِ الٰہیہ کے ماتحت زندگی گزارتے ہیں اور قوانین خداوندی کی اپنے ہر ہر عمل ، ہر قدم اور ہر ہر نفس میں پابندی کرتے ہیں۔ اسی کو پرہیز گاری اور مسنون زندگی کہتے ہیں۔ 

معلوم ہوا کہ ایمان اور ولایت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں جو حقیقی مومن ہے، وہ لازمی اللہ کا ولی ہے۔ یاد رکھیے کہ قرآن کی رو سے ہر مومن اللہ کا ولی ہے اور اللہ ہر مومن کا ولی ہے متقیِ مومن اور اللہ کی یہ دوستی دو طرفہ ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " اولیاء اللہ وہ ہیں جو اللہ کے لئے آپس میں محبت کرتے ہیں، اگرچہ ان میں رحم (مادر) کے رشتے بھی نہ ہوں اور نہ کوئی مالی لین دین ہوخدا کی قسم (حشر کے میدان میں ) ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر رونق افروز ہوں گے۔

جب لوگ تھر تھر کانپتے ہوں گے۔ (اس روز) نہ ہی انھیں کوئی خوف ہوگا اور جب لوگ غمزدہ ہوں گے، وہ غم سے محفوظ و مامون ہوں گے۔ اولیاء اللہ کی ہدایت کا اللہ دلیل سے ضامن ہے ۔ حضرت ابو بکر الاصم ؒفرماتے ہیں " اولیاء اللہ وہ ہیں، جن کی ہدایت کا دلیل سے اللہ ضامن ہے اور اللہ کی عبادت اور اس کے دین کی دعوت کے اولیاء اللہ ضامن ہیں"۔

جب بندۂ مومن ان صفات پر کار بند ہوجاتا ہے تو وہ ولی اللہ ہوتا ہے اور جب بندہ ولی اللہ ہو جاتا ہے تو اللہ اس کا والی ہوجاتا ہے اور یہی ہونا چاہئے اس لئے کہ قرب (دوستی) دونوں طرف سے ہوتا ہے۔ 

حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اللہ کے بندوں میں سے ایسے بندے بھی ہیں جو نہ انبیاء میں سے ہیں، نہ شہداء میں سے، لیکن قیامت کے دن اللہ کے نزدیک ان کی عزت و تکریم اور مقام و مرتبہ دیکھ کر انبیاء اور شہدا ء رشک کریں گے۔ ہم نے عرض کی کہ ہمیں بتائیں کو وہ کون ہیں اور ان کے اعمال کیا ہیں کہ ہم ان سے محبت کریں؟آپ ﷺ نے فرمایا " یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے لئے دوست اور ولی ہیں"۔

بخاری کی ایک طویل روایت اور حدیث قدسی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ فرماتا ہے کہ جس کسی نے میرے ولی سے دشمنی کی، میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا قرب حاصل کرنے کے لئے میں نے جو احکام بندوں پر فرض کئے ہیں، ان کے بجا لانے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، میرا بندہ ہمیشہ نفل عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کر تا رہتا ہے۔ 

یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سےوہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سےوہ پکڑتا ہے، اس کے پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور عطا کرتا ہوں اگر وہ مجھ سے پناہ کا طلبگار ہو تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں۔

مذکورہ بالا حدیث قدسی اولیاء اللہ کی عظمت و تکریم میں جہاں بڑی اہمیت کی حامل ہے، وہاں یہ تشریح طلب بھی ہے۔ اس حدیث قدسی میں اللہ کا بندئہ ِمومن کے لئے یہ کہنا جب بندئہ ِ ولی مومن میری اطاعت و فرماںبردار ی سے میرا قرب خاص حاصل کرلیتا ہے تو میں اس کا ہاتھ پاؤں، کان، آنکھ بن جاتا ہوں۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ جوبندئہ ِ مومن ایمان کامل اور تقویٰ خالص کے ساتھ میری اطاعت اور میرے رسول کی پیروی کرتا ہے، میرے دین کو بہ حیثیتِ نظامِ حیات غالب و نافذ کرنے کی جدو جہد کرتا ہے تو وہ میرے حکم کے ماننے اور میرے قانون پر عمل پیرا ہونے میں اتنا محتاط اور حساس ہوتا جاتا ہے کہ جب بھی ہاتھ بڑھاتا ہے تو میرے حکم اور قانون کے مطابق، جب بھی قدم اٹھاتا ہے تو میرے حکم اور قانون کے مطابق، جب بھی نظر سے دیکھتاہے تو میرے قانون اور حکم کے مطابق، غرض کہ اس کے ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان، اس کے پورے وجود سے کوئی عمل میرے حکم اور میرے قانون کے خلاف سر زد نہیں ہوتا۔

مختصراً یہ کہا جائے تو یقیناً بے محل نہ ہوگا کہ اولیاء اللہ کامل اتباعِ رسولﷺ کرنے والے پیکرِ اخلاص ، محبتِ الٰہی اور عشقِ رسول اللہﷺ سے سرشار ، فرض کے ساتھ نوافل کا اہتمام کرنے والے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے رکھنے والے ، خوب صدقہ و خیرات کرنے والے کثرت سے استغفار کرنے والے، ہمہ وقت ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنے والے ، اگر معصیت کا ارتکاب ہوجائے تو فوراً توبہ کرنے والے، اللہ ہی کی طرف رجوع کرنے والے، اللہ ہی پر توکل کرنے والے، خوف الٰہی سے لبریز قلوب و خشیت ایزدی سے کپکپاتے بدن رکھنے والے، صابر شاکر، متحمل مزاج، خوب نیکو کار، لہو و لعب سے پرہیز کرنے والے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ پر کار بند ، نمودو نمائش سے مجتنب، لغو یات سے اعراض کرنے والے ،شرم و حیا کا مجسمہ، امانت و دیانت دار، وعدہ وفا اور عہد پورا کرنے والے منصف مزاج، صلہ رحمی کرنے والے، بکثرت تلاوتِ قرآن کے ساتھ ساتھ قرآن میں فکر و تدبر کرنے والے ہمہ وقت با وضو، اللہ کے دوستوں سے دوستی اور دشمنوں سے دشمنی رکھنے والے ، راضی بہ رضائے الٰہی اور عفو و در گزرکرنے والے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان اولیاء اللہ کی سب سے بڑی صفت اور خوبی و نیکی یہ ہوتی ہے کہ یہ راتوں کےعبادت گزار اور دن کے شہ سوار ہوتے ہیں ،یعنی ان کی راتیں عبادت میں حالتِ قیام و سجود میں بسر اوردن قرآن کو تھامے ہوئے دین کی جدو جہد کرتے ہوئے گزرتے ہیں ۔

یہ ایک تاریخی حقیقت اورسورج کی طرح روشن سچائی ہے ۔صحابۂ کرامؓ کے بعد اشاعتِ اسلام اولیا ء اللہ ہی کی مرہون منت ہے۔ قرونِ اولیٰ سے آج تک جتنے بھی صادق اور حقیقی اولیاء اللہ گزرے ہیں، سب کے سب نے توحیدِ خالص اور اتباع ِسنت پر کار بند رہتے ہوئے اپنی عمریں اشاعتِ اسلام اور غلبۂ دین کے لئے وقف کئے رکھیں اور دین کے غلبے کی اس کوشش اور اشاعت اسلام ے سرمو انحراف نہیں کیا۔

یہ اولیاء اللہ، دین کی سر بلندی کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔ آج بھی اگر دین غالب اور اسلام فتح مند و سر بلند ہوگا تو وہ سچے، حقیقی اولیاء اللہ ہی کے ذریعہ ہوگا۔

اقراء سے مزید