آپ کے مسائل اور ان کا حل
سوال: میرے والد صاحب مرحوم جب زندہ تھے تو بعض مشکلات کو مدّنظر رکھتے ہوئے میں نے ان سے مشورہ کیا کہ میں حج 2025 میں کر لوں یا 2026 میں؟انہوں نے بطورِ مشورہ کہا کہ 2025 میں کر لینا ، اگر وسائل میسر ہوئے تو آنے والے سالوں میں میرے لیے حج کر لو گے۔ 2025 جنوری میں میرے والد صاحب قضائے الٰہی سے وفات پا گئے۔ انتہائی مشکلات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے 2025 میں مجھے حج کی ادائیگی نصیب فرمائی، الحمد للہ ربّ العالمین !
اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا والد صاحب کی طرف سے حج ادا کرنا لازم ہوگا؟ یا رمضان المبارک میں ان کی طرف سے عمرہ ادا کر لوں، جیسے ایک حدیث شریف میں رمضان المبارک میں عمرہ کی فضیلت حضور ﷺ کے ساتھ حج کی ادائیگی کے برابر ثواب بتایا گیا ہے۔
والد صاحب پر حج زندگی بھر کبھی فرض نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ان کی اتنی جائیداد ہے کہ وہ نصاب پر پورا اترے، یہ کوئی باقاعدہ وصیت نہیں تھی، بلکہ میرے حج سے متعلق مشورے میں انہوں نے خواہش کا اظہار کیا تھا، میں نے یہ کہا تھا کہ صحت رہی اور اللہ تعالیٰ نے وسائل دیے تو ان شاء اللہ آپ کے لیے حج کر لوں گا۔ میری آمدن الحمدللہ اتنی ہے کہ اگر بیٹے کی شادی نہ کروں تو کچھ عرصے میں امید ہے کہ حج کے لیے رقم پوری ہو جائے گی۔ برائے مہربانی راہنمائی فرمائیے!
جواب: اللہ تعالیٰ آپ اور تمام مسلمانوں کی مشکلات آسان فرمائے، اور تمام مسلمانوں کے نیک اعمال قبول فرمائے ۔(آمین) آپ کے والد مرحوم پر حج فرض نہیں تھا اور انہوں نے اپنی زندگی میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر اگلے سالوں میں وسائل میسر ہوں تو میری طرف سے حج کرلینا تو ایسی صورت میں ان کے انتقال کے بعد آپ پر شرعاً ان کی طرف سے حج کرنا لازم نہیں ہے۔
البتہ مرحوم والد کی طرف سے حج کرنا بہت بڑی سعادت ہے، اس کا ثواب بھی مرحوم کو پہنچتا ہے، لہٰذا آپ اپنے حالات کا جائزہ لیں، اگر بیٹے کا مناسب رشتہ مل جائے اور باہمی مشورہ سے اس کے نکاح کی ترتیب بن رہی ہو اور اس کے نکاح کے اخراجات آپ اپنی طرف سے ادا کرنا چاہتے ہوں تو پہلے اسے ترجیح دینی چاہیے، تاہم اس میں غیر ضروری رسم ورواج اور تکلفات سے بچ کر ، سادگی سے نکاح کردیا جائے، ان شاء اللہ تعالیٰ اس میں برکت بھی ہوگی اور آپ باقی رقم خیر کے دوسرے کاموں مثلاً عمرہ وغیرہ میں بھی خرچ سکیں گے۔
اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ استطاعت نصیب فرمائے اور اسباب و وسائل مہیا ہوجائیں تو مرحوم والد کی طرف سے نفلی حج کرلیں، اور اس کی نیت رکھیں گے تو امید ہے کہ ان شاء اللہ اس کے اسباب خود ہی بنتےجائیں گے۔
اگر بیٹے کی تعلیم وغیرہ اعذار کی بنا ءپر شادی میں تاخیر ہو اور حج کے اخراجات کے بقدر رقم جمع ہوجائے تو پہلے والدِ مرحوم کی طرف سے نفلی حج بھی کرسکتے ہیں۔ بہر صورت والد صاحب کی طرف سے عمرہ کرنے سے بہتر ہے کہ نفلی حج ادا کریں۔ اگر اس کے اسباب نہ ہوں تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ رمضان المبارک میں عمرہ ادا کرلیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے حجۃ الوداع سے واپسی کے بعد امّ سنان انصاریہ ؓ سے پوچھا کہ تمہیں ہمارے ساتھ حج کرنے سے کس چیز نے روکا؟ انہوں نے جواب دیا: ہمارے پاس صرف دو اونٹ تھے، ایک پر میرا بیٹا اور اس کا والد حج کرنے چلے گئے اور دوسرا ہمارے لیے چھوڑ دیا؛ تاکہ ہم اس سے کھیتی کو سیراب کرنے کا کام لیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا : جب ماہ ِرمضان آئے تو اس میں عمرہ کر لینا، کیوں کہ رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے۔ (صحيح بخاری) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ”میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔“ (فتاویٰ شامی، کتاب الحج، 2/ 462، ط: سع - منحۃ الخالق حاشیۃ البحر الرائق، البحر الرائق: کتاب الحج، ج:2 ص:544، ط: دار الکتب العلميۃ)
اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
iqra@banuri.edu.pk