اسلام انسان کی جان، عزت، عفّت اور صحت کو ایک مقدس امانت قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔ بےشک، اللہ تم پر مہربان ہے۔ (سورۃ النساء) یعنی اللہ اپنی مخلوق پر مہربان ہے، لہٰذا وہ نہیں چاہتا کہ انسان اپنے نفس اور صحت کو خود اپنے ہاتھوں برباد کرے۔
صحت کا ضیاع خواہ غفلت سے ہو یا گناہ کی راہ سے، دونوں صورتوں میں انسان اپنی ہی نعمتوں پر خود ظلم کرتا ہے۔ وہ بیماریاں جو بداحتیاطی، بے حیائی، منفی عادات، ناجائز تعلقات یا منشیات کے استعمال سے پیدا اور پھیلتی ہیں، ان کے بارے میں اسلام نہایت واضح اور سخت تنبیہ کرتا ہے ،کیونکہ ان کا اثر صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہتا، بلکہ خاندانوں، معاشروں اور نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
’’ایڈز‘‘ جیسی مہلک بیماری اس تلخ حقیقت کی ایک مثال ہے کہ جب انسان اپنی خواہشات کو حدودِ شریعت سے آزاد کر لیتا ہے تو اس کا انجام صرف دنیاوی ذلت نہیں، بلکہ اکثر جسمانی ہلاکت تک جا پہنچتا ہے۔
اسلام نے اس دائرے میں اس قدر مضبوط حفاظتی حصار قائم کیا ہے کہ اگر معاشرہ ان اصولوں کو اپنا لے تو اس قسم کی بیماریوں کی جڑیں خود بخود ختم ہو جائیں۔ نکاح کی سنت، عفت و حیا کا نظام، نظریں نیچی رکھنے کا حکم، زنا کے قریب جانے سے منع کرنا، پاک دامنی کی فضیلت، شراب و نشہ آور اشیا کی ممانعت، یہ سب صرف عبادات نہیں، بلکہ صحتِ انسانی اور سلامتیِ معاشرہ کا قلعہ ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں۔ (سنن ابن ماجہ: 4019)
یہ حدیث نہ صرف اخلاقی جرم کے نتائج کی طرف اشارہ ہے بلکہ صحت عامہ کے اصولوں کی بھی پیشگی وضاحت ہے کہ حدو و قیود سے عاری جنسی طرزِ زندگی بیماریوں کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
ایڈز کا پھیلاؤ زیادہ تر انہی ذرائع سے ہوتا ہے جن سے اسلام نے پہلے ہی سختی کے ساتھ منع فرمایا۔ ناجائز جنسی تعلقات، ہم جنس پرستی، جسم فروشی، بگڑا ہوا معاشرتی ماحول، منشیات کا استعمال نیز علاج و معالجہ میں غیرمعیاری اور جراثیم سے آلودہ آلات یا طبی اوزار کا استعمال وغیرہ۔
یہ تمام رویے نہ صرف گناہ کے زمرے میں آتے ہیں بلکہ انسانی صحت کے لیے بھی شدید خطرہ ہیں۔ جدید سائنس نے جو کچھ آج ثابت کیا ہے، اسلامی تعلیمات نے وہ چودہ سو سال پہلے ایک حتمی ضابطے کی صورت میں انسانیت کو عطا کیا تھا۔
اسلام کا پیغام یہ نہیں کہ بیماری کو گناہ کا حتمی نتیجہ سمجھ کر مریض کو نفرت یا طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے۔ بلکہ اسلام مریض کے لیے ہمدردی، مدد اور دعا کا حکم دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بیمار کی عیادت کو عظیم صدقہ، اجر اور ایمان کی علامت قرار دیا ہے، خواہ مرض کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ مریض کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنا، اسے معاشرتی طور پر ملامت کرنا یا حقیر سمجھنا، یہ سب اسلامی اخلاق کے خلاف ہے۔ دین کی نظر میں مرض قابلِ نفرت ہے، مریض نہیں۔
اسلام اس بیماری کے علاج، بچاؤ اور معاشرتی اصلاح کے لیے کئی راستے فراہم کرتا ہے۔ سب سے پہلا راستہ اصلاحِ کردار ہے جس میں حیا، عفت، پاکیزگی، وفاداری، ازدواجی زندگی کا استحکام اور گناہ سے نفرت بنیادی ستون ہیں۔
قرآن کہتا ہے: ''وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَیٰ''، زنا کے قریب بھی نہ جاؤ کیونکہ اس کے قریب جانے کا نتیجہ صرف روحانی نقصان نہیں بلکہ جسمانی تباہی بھی ہے۔ اسی طرح سے نشہ آور اشیا کو ''اُمُّ الخبائث'' یعنی برائیوں کی ماں قرار دیا گیا ہے کیونکہ منشیات انسان کی عقل چھین لیتی ہیں اور وہ ہر طرح کے خطرناک رویوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
دوسرا راستہ احتیاط ہے جو طب اور شریعت دونوں میں لازم ہے۔ اسلام نے ہمیشہ حفظان صحت کو ترجیح دی ہے۔ مسجد میں آنے کے آداب، صفائی، غسل، طہارت، بیماری کے وقت احتیاطی تدابیر، یہ سب ایک ایسے سماجی نظم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جو بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یعنی جذام کے مریض سے ایسے دور رہو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔(صحیح بخاری: 5707) یہ کوئی نفرت نہیں ،بلکہ حفاظتی اصول ہے۔
آج انسانیت کو اس خطرناک بیماری کے مقابلے میں سب سے زیادہ ضرورت معاشرتی ذمہ داری کی ہے۔ نوجوان نسل کو بے راہ روی سے بچانا، انہیں نکاح کی آسانیاں فراہم کرنا، شرم و حیا کی تربیت، میڈیا میں فحاشی کی روک تھام، منشیات کے خلاف سخت کارروائی، میڈیکل نظام میں خون اور آلات کی حفاظت۔ یہ سب ایمان کا تقاضا بھی ہے اور انسانیت کی خدمت بھی۔
اگر والدین، اساتذہ، علماء، ڈاکٹرز اور میڈیا اپنا کردار ادا کریں تو اس بیماری کے پھیلاؤ کو نہ صرف روکا جا سکتا ہے بلکہ معاشرہ ایک پاکیزہ اور محفوظ سمت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
اسلام ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ناامیدی سب سے بڑی بیماری ہے۔ ایڈز میں مبتلا افراد اکثر معاشرتی بے حسی کا سب سے گہرا زخم کھاتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال، مشاورت، علاج، مناسب غذا، نفسیاتی آسودگی اور روحانی دلجوئی، یہ سب عبادت کے درجے میں شمار ہوتے ہیں۔ اسلام مریض کے دل میں امید جگاتا ہے، اللہ کی رحمت کے دروازے کبھی بند نہیں کرتا اور توبہ کے دروازے ہمیشہ رکھتا ہے۔
ایڈز جیسے امراض کی روک تھام صرف طبّی مسئلہ نہیں بلکہ فکری، اخلاقی اور روحانی اصلاح کا مطالبہ ہے۔ جب تک معاشرہ مجموعی طور پر عفت و پاکیزگی کے نظام کو اختیار نہ کرے، نوجوانوں کو اخلاقی تعلیم نہ دے، میڈیا کو حدود میں نہ رکھے، شراب اور فحاشی پر قابو نہ پائے، منشیات کے خلاف اجتماعی جدوجہد نہ کرے، تب تک محض دوائیں اس مسئلے کا حل نہیں بن سکتیں۔ شریعت کے اصول اس بیماری کے خلاف سب سے مضبوط ڈھال ہیں کیونکہ یہ اصول جسم اور روح دونوں کو محفوظ کرتے ہیں۔
یہ مرض انسانیت کے لیے ایک تنبیہ ہے کہ فطرت کی سرکشی کا نتیجہ ہمیشہ تباہی ہوتا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ دعوت بھی ہے کہ انسان اپنے خالق کی طرف لوٹے، اپنی زندگی کو پاکیزگی، حیا، وفاداری اور تقویٰ کے راستے پر لائے۔ جب انسان اللہ کے نظام سے جڑ جاتا ہے تو نہ صرف بیماریوں کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ دل کو سکون، روح کو روشنی اور معاشرے کو استحکام نصیب ہوتا ہے۔
غرض یہ بیماری ہمیں اس حقیقت کا احساس دلاتی ہے کہ انسان کی پوری زندگی دراصل اللہ تعالیٰ کی سپرد کردہ ایک امانت ہے۔ اس کی حفاظت چاہے وہ جسم کی ہو، تعلقات کی ہو، کردار کی ہو یا آنے والی نسلوں کی، صرف سماجی ذمہ داری نہیں، بلکہ ایک عظیم دینی تقاضا ہے۔
اسلام نے جو پاکیزہ اور باحیا معاشرہ ترتیب دیا ہے، اس میں ایسی آلودگیوں کے پھیلنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ جہاں حیا کی روشنی ہو، وہاں گناہ کے اندھیرے ٹھہر نہیں سکتے اور جہاں گناہ ختم ہو جائے وہاں ایسی آفات اپنی جڑیں نہیں جما سکتیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کی روشنی میں صحت، طہارت اور پاکیزہ سماجی رویّوں کا صحیح ادراک عطا فرمائے اور پوری انسانیت کو اُن بیماریوں سے محفوظ رکھے جو صرف جسم نہیں، بلکہ روح کے زخموں کا سبب بنتی ہیں۔ (آمین)