عمران احمد سلفی
اسلام میں ہر فرد کو قانون کے سامنے برابر سمجھا گیا ہے، چاہے وہ عام شہری ہو یا اعلیٰ مقام رکھنے والا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جاؤ، اگرچہ تمہارے اپنے نفسوں کے خلاف ہو یا ماں باپ اور رشتے داروں کے خلاف" (سورۃ النساء: 135) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ عدل میں کسی کی رعایت نہیں۔
اسی طرح سورۃ المائدہ میں ارشاد ہے: "اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف پر قائم رہو، عدل کی گواہی دو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو کہ یہ تقویٰ سے قریب تر ہے"۔ (سورۃ المائدہ: 8) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عدل و انصاف کا اصول اٹل ہے۔
خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت اس بات کی روشن مثال ہے کہ یہاں کسی کو بھی بلا جواز رعایت حاصل نہیں تھی۔ ایک تاریخی واقعے میں ایک شخص نے حضرت عمر ؓ سے بیت المال سے ملنے والے کپڑے پر سوال کیا۔ حضرت عمر ؓ نے بغیر کسی تامل کے جواب دیا کہ یہ اضافہ ان کے بیٹے عبداللہ کی وجہ سے ہے، یہ واقعہ (جو صحیح بخاری اور مسلم میں مذکور ہے) یہ بتاتا ہے کہ حکمران بھی اپنے اعمال کا حساب دینے کے پابند ہیں۔
اسی طرح حضرت عمر ؓ ایک دفعہ ایک یہودی کے ساتھ تنازع میں عدالت میں پیش ہوئے اور قاضی نے انہیں کھڑا رہنے کا حکم دیا جبکہ یہودی کو بیٹھنے کی اجازت دی۔ حضرت عمرؓ نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا، جو عدل کی برابری کی زندہ مثال ہے (یہ واقعہ ابن خلدون کی تاریخ اور دیگر سیرت کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے)۔
اسی طرح حضرت عمرؓ نے اونٹ کی چراگاہ کا دورہ کیا، اس میں کچھ اونٹوں کو توانا اور فربہ دیکھا ،فرمایا یہ اونٹ کس کے ہیں؟ معلوم ہوا کہ آپ کے بیٹے ہیں، اس لیے یہ کافی صحت مند ہیں۔ دوسرے اونٹوں کے مقابلے میں بیٹے کو بلایا فرمایا یہ اونٹ تمہارے ہیں اور ان کا خیال زیادہ اچھا رکھا گیا، اس لیے کہ خلیفہ کے بیٹے ہو۔ آج سے یہ اونٹ بیت المال کے ہیں، قوم کی امانت ہیں۔
اسلام میں کسی کے لیے رعایت نہیں ہے، ہر شخص اللہ کے قانون کے تابع ہے اور اس کے احکام سے فرار ممکن نہیں ہے۔ ایک اور حدیث میں نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: تم سے پہلے کی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے (صحیح بخاری)
حضرت علی ؓنے کسی رشتے دار یا دوست کو معافی کے لیے نہیں چھوڑا۔ ایک مشہور واقعہ میں حضرت علیؓ نے اپنے بھائی عقیل کو بیت المال سے اضافی مدد دینے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ بیت المال عوام کی امانت ہے، اس میں ذاتی رشتوں کی بنیاد پر رعایت نہیں، جب انہوں نے اپنی عدالتی ذمہ داری نبھائی تو ہر شخص قانون کے تابع رہا، چاہے وہ ان کے قریبی افراد ہوں یا عام شہری۔
اسلام میں یہ اصول اس قدر واضح ہے کہ کوئی بھی شخص بنیادی اسلامی فیصلے کو بدلنے یا نظر انداز کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "ہر نفس نے جو کچھ کمائے گا اس کی ذمہ داری اسی پر ہے" ۔(سورۃ النجم: 39)
تاریخی مثالیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ قانون کی بالادستی ہر دور میں اہم رہی ہے۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت علیؓ کی عدلیہ نے یہ ثابت کیا کہ اعلیٰ حکام بھی قانون کے سامنے برابر ہیں۔ اس کے برعکس، شریعت سے متصادم ہمارا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے مترادف ہے۔ایک حدیث میں نبی کریم ﷺفرماتے ہیں: لوگ برابر ہیں جیسے کنگھے کے دانت۔(مسند احمد) یہ حدیث مساوات کی تاکید کرتی ہے۔
اسلامی تاریخ اور تعلیمات میں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ قانون کی بالادستی اور عدل ہر دور میں لازم ہے۔ حضرت عمرؓ کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ انہوں نے کسی کے ساتھ بھی رعایت نہیں برتی اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی گئی۔
اسلامی نقطۂ نظر سے یہ ناقابل قبول ہے کہ کسی بھی شخص کو اپنی ذمہ داریوں سے آزاد رکھا جائے کیونکہ قرآن مجید میں بھی بار بار عدل و انصاف کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ (سورۃ النحل: 90)
تاریخی طور پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خلفائے راشدینؓ نے اپنی ذمہ داری کے دوران کسی بھی رعایت کو برداشت نہیں کیا۔ پیغمبر اکرمﷺ کی بیٹی فاطمہ ؓکے حوالے سے بھی واضح بیان موجود ہے کہ قانون کی خلاف ورزی پر سزا لازمی ہے۔ہر شخص اللہ کے قانون کے سامنے برابر ہے۔
اسلامی تاریخ کی مثالیں موجود ہیں کہ عدل و انصاف کے اصول ہر دور میں یکساں رہے ہیں۔ لہٰذا اسلامی اصول اور تاریخی مثالوں کی روشنی میں واضح ہے۔ ہر شہری کے لیے قانون کی بالادستی لازمی ہے، چاہے وہ حکمران ہو یا عام شخص۔ حضرت عمرؓ کی مثال ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عدل میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ ہر شخص اللہ اور قانون کے سامنے برابر ہے۔