ڈاکٹر نعمان نعیم
اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اِظہارِ رائے کو چند اَخلاقی ضابطوں کا پابند بنا دیا جائے تو اس سے کوئی انسانی حق مجروح نہیں ہوتا کیوں کہ آزادیِ اِظہارِ رائے اگرچہ ہر اِنسان کا بنیادی حق ہے، لیکن یہ حق مطلق و بے مہار نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی ایسا دعویٰ کر سکتا ہے۔
کائنات میں صرف اسلام ہی آزادی کا علمبردار رہا ہے، اس کے آزادی کے رہنما اصول ہر زمانے میں یکساں رہے ہیں، اسلام نے مخصوص اور محدود آزادی کا تصور دنیا کو دیا ہے جبکہ دنیا میں لوگوں نے آزادی کو ہی آزاد کردیا۔ لفظ ِآزادی، عربی زبان کے لفظ حرّیت کا ترجمہ ہے۔ لسان العرب کے مطابق ہر قابل فخر اور عمدہ چیز کو’حُرّ‘کہتے ہیں اور افعال میں ہراچھے کام پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور انسانوں میں اَحرار انہیں کہتے ہیں جو ان میں سب سے بہتر اور افضل ہوں۔
آزادی کا کوئی متعین، منضبط اصطلاحی مفہوم ایسا نہیں ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ ہر مکتب فکر وفلسفہ نے اپنے اپنے مفروضات کے مطابق اس کی تعبیر وتفسیر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے حقوق کے حصول اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے تصرف کی جو قدرت عطا کی ہے، اسے حریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اسلام کے بنیادی مأخذ قرآن اور حدیث ہیں۔ آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے قرآنی نصیحت کو حضور نبی کریم ﷺ کی سنّت میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کو نفرت پھیلانے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ معاشرے میں امن اور بھائی چارے کے لیے کردار ادا کرنے کی نصیحت کی گئی ہے، جیسا کہ حدیث پاک ہے: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘۔
یہ حدیث معاشرے کے لوگوں کے درمیان بھائی چارہ اور یگانگت کو یقینی بناتی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث مبارک صرف مسلمانوں کے لیے ہے لیکن اس کا مقصد پُر امن معاشرے، بھائی چارے اورمحبت کو عام کرنا ہے، تاکہ لوگوں کو معاشرے میں آزادی اور تحفظ کا احساس ہو۔
قرآن کریم میں آزادئ اظہار رائے کو ایک مختلف پیرائے اور سمت میں بیان کیا گیا ہے جسے قرآن مجید میں ’’حسبا‘‘ کےاصول سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ قرآن کریم کا بنیادی اور اہم اصول ہے جس کے ذریعے نیکی کرنے اور گناہوں سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے اور یہ بہت سے دوسرے قرآنی اصولوں کی بنیا دبھی ہے۔ یہ اصول شریعت کے بنیادی مقصد کی نمائندگی کرتا ہے اور بہت سی آزادیاں جو جدید آئینوں میں موجود ہیں ان کےلیے بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات میں آزادئ اظہار رائے کے اصول کو اچھے طریقے سے بولنے کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔ مثلاً!’’اور لوگوں کے ساتھ اچھے انداز میں بات کرو‘‘۔ یہ خالصتاً آزادئ اظہار رائے سے متعلق بات ہے اور یہ نہ صرف قانونی حکم ہے ،بلکہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے لیے محبت، اخلاص، عزت اور اخلاقی فریضہ ہے۔ آزادئ اظہار رائے کی وضاحت قرآن کریم کی ایک اور آیت میں کی گئی ہے:’’اورجھوٹ اورغلط بیانی سے اجتناب کرو ‘‘۔
یہاں پرواضح طورپر اس بات کی ممانعت اور واضح حکم دیا گیا ہے کہ بری زبان اورغلط معلومات یا رویہ نہیں اپنایا جائے گا کہ معاشرے کے افراد کے درمیان کسی قسم کی کوئی غلط فہمی اور تشدد نہ پھیلے۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ نے سچ اور سیدھی بات کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسلام میں آزادی کو کتنا بلند مقام حاصل ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی عقیدے کو اختیار کرنے کے معاملے میں بھی اسلام نے انسان کو مجبور نہیں کیا ہے۔ عقیدے کی آزادی جو اسلام کی نظر میں ہر شخص کا پیدائشی حق ہے، لیکن یہ آزادی بھی چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے، تاکہ یہ آزادی لوگوں کے ہاتھوں میں کھلواڑنہ بن جائے کہ جب چاہیں اسلام قبول کر لیں اور تھوڑے دنوں کے بعد جب منہ کا مزا بدلنا ہو تو کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیا یا پھر دوبارہ اسلام قبول کر لیا۔یہ آزادی کا غلط استعمال ہے۔
دوسری آزادی جس کا اسلام قائل ہے۔ وہ ہے فکر کی آزادی متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ مثلاً:’’ان سے کہو زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسے آنکھیں کھول کر دیکھو۔‘‘(سورۂ يونس) دوسری آیت میں ہے: ’’اے نبی ﷺ ! ان سے کہو میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں ۔ اللہ کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دودو مل کراپنا دماغ لڑاؤ ،پھر غور کرو۔‘‘ (سورۂ سبا)
اسلام نے لوگوں کو اس بات کی تعلیم دی کہ لوگ اوہام وخرافات پر یقین نہ کریں اور نہ باپ دادا ہی کے کہنے پر بلکہ خود ہی غور و فکر کریں، اپنی عقل استعمال کریں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کہ کون سا دین حق پر ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن نے توحید و رسالت و آخرت کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے عقلی دلائل دئیے ہیں، تاکہ عقل والے غور کریں اور غور کرنے کے بعد اسے حق سمجھ کر قبول کریں۔
اسی فکری آزادی کے نتیجے میں علمی آزادی میسر آئی ۔ اسی علمی آزادی کی بنیاد پر علمائے کرام متعدد احکام میں ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے ہیں، ہر عالم اس بات کے لیے آزاد ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں دلیل کی بنیاد پر کوئی بھی رائے قائم کرے اور یہ اختلاف اسلام کی نظر میں ہر گز معیوب نہیں ہے۔ یہ علمی آزادی ہی ہے کہ جس کی وجہ سے علماء میںآراء کا اختلاف ظاہر ہوا اور اس اختلاف کے باوجود ہر عالم دوسرے سے استفادہ کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا۔
اسی طرح اسلام کچھ کہنے اور تنقید کرنے کی آزادی عطا کرتا ہے، بلکہ بعض موقعوں پر جہاں معاملہ عوامی مصلحتوں سے متعلق ہو کچھ کہنا اور تنقید کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ امت کے کاندھوں پر ڈالا ہے۔ چنانچہ جب کوئی برائی ظاہر ہو یا معاشرے میں عام فساد کا اندیشہ ہو تو تنقید کا حق استعمال کرتے ہوئے اس فساد کا سد باب کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں جو مصیبتیں پیش آئیں، انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’بھلائی کا حکم دو۔ برائی سے روکو اور جو مصیبت آئے اس پر صبر کرو‘‘۔ (سورۂ لقمان)
دین اسلام کا آزادی کے سلسلے میں یہ موقف ہے کہ وہ آزادی کا حامی اور اس کا محافظ ہے۔ اس سلسلے میں امیر المومنین عمر بن خطاب ؓکا یہ قول نقل کیا جا سکتا ہے۔"تم نے لوگوں کو کب سےغلام بنا لیا ،حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔‘‘ اور حضرت علی ؓ نے یہ وصیت کی تھی۔’’تم کسی اور کے بندے نہ ہو جاؤ اللہ نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے۔‘‘انسان کے سلسلے میں اسلام کا یہی موقف ہے کہ انسان پیدائشی طور پر آزاد ہے۔ یہ آزادی اللہ کی بخشی ہوئی ہے، جسے کوئی انسان اس سے چھیننے میں حق بجانب نہیں ہے۔ یہ ساری آزادیاں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور اسلام ان کی حمایت و مدافعت کرتا ہے۔
دراصل اسلام کا تصور آزادی بہت وسیع ہے۔ اسلام جب انسان کی آزادی کی بات کرتا ہے تووہ انسان کو ہر اس چیز سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے جو اس کی عزت وکرامت کو نیست ونابود کرنے والی ہو۔ چناںچہ وہ اس کے دل اور جذبات کو شیطانی محرکات اور نفسانی خواہشات کے غلبے سے آزاد کرتا ہے۔ اس کی عقل اور سوچ کو اوہام وخرافات اور فکری انحرافات کی پابندیوں سے آزاد کرتا ہے۔ وہ اس کے جسم وجان کو غلامی، رُسوائی، اور ظلم وجبر کے عناصر سے آزاد کر تا ہے۔وہ انسان کو صرف اللہ وحدہ لاشریک کا بندہ بناتا ہے۔
اسلام کے عطا کردہ حقِّ حریت کا اطلاق ہر قسم کی آزادی پر ہوتا ہے اوریہ بہت سارے انسانی حقوق کی بنیاد ہے، مثلاً ایمان و عقیدے کی آزادی، مذہب کی آزادی، غور وفکر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، کام کی آزادی، رہائش کی آزادی، ملکیت کی آزادی، سیاسی آزادی، شہریت کی آزادی، حتیٰ کہ انسان کی انسانیت بھی اس کی آزادی کی مرہون منت ہے۔
اسلام اپنے تصور آزادی کو حقوق وفرائض کے توسط سے عملی جامہ پہناتا ہے، کیوں کہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ اس لیے کہ جب تک حقوق کو فرائض سے مربوط اور منسلک نہیں کیا جاتا، انسان کا دوسرے انسانوں سے صحیح بنیادوں پر تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔ اگر انسان اپنے حقوق سے واقف اور فرائض سے ناواقف ہوگا تو وہ اپنے فرائض کی ادائیگی سے قاصر رہے گا۔
اسلام ان حدود کے اندر اور ان مناہج کے ساتھ آزادی کی بنیادوں کو زندگی کے تمام معاملات میں جاری وساری رکھنے کا خواہاں ہے۔ وہ زندگی کے اُن تمام گوشوں میں نافذ دیکھنا چاہتا ہے، جس سے فرد کی شرافت وکرامت وابستہ ہے۔ شہریت سے متعلق معاملات ہوں یا دینی امور، غوروفکر اور تفسیر وتعبیر کے مواقع ہوں یا سیاست وحکومت کے مراحل، اسلام نے ہر جگہ آزادی کی مشعلیں روشن کی ہیں، جس کی مثال دوسری کسی بھی شریعت میں (قدیم وجدید)مثال نہیں دی جاسکتی۔
اسلام اس بات کا علم بردار ہے کہ انسان کی انسانیت،اس کی آزادی کی مرہون منت ہے۔ مومن کی مستقل اور توانا شخصیت سازی کے پیش نظر نبی اکرم ﷺ نے اپنی سنتِ مطہرہ اور سیرتِ طیبہ میں آزادی کے اصول کی، تمام معاملات میں زبردست حوصلہ افزائی فرمائی ہے، خواہ اُس کا تعلق غوروفکر سے ہو یا اظہار اور ابلاغ سے یا دین اور دنیا کے معاملات میں اجتہاد سے۔ عہدِرسالتﷺ اور عہد صحابہؓ اور اُس کے بعد کی اسلامی تاریخ وسیع تر آزادی کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔