ڈاکٹر نعمان نعیم
رسول رحمت، سید الاولین والآخرین امام الانبیاء و المرسلین احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ گرامی ایک ایسی کامل و اکمل اور عظیم ترین شخصیت ہے کہ آپ ﷺ کی جامعیت و کاملیت اور عالمگیریت نے کائنات کے ہرذرے، ہرگوشے اور ہر شعبۂ حیات کو متاثر کیا، عبادات ہو یا معاملات، اخلاقیات ہو یا معاشرت، عدالت ہو یا سیاست، ریاستی احکام ہوں یا سفارتی تعلقات، جنگی تدابیر ہوں یا گھریلو مسائل، تمام میں رسول رحمت ﷺ کی ذات والا صفات کامل و اکمل نمونہ کے طور پر سامنے آتی ہے، رسول اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ حیاتِ انسانی کے تمام گوشوں پر محیط دکھائی دیتی ہے، عہد رسالت سے قبل حیات طیبہ میں آپ ﷺایک امانت دار تاجر، بہترین شوہر، اچھے دوست، یتیموں کے در یتیم، بیواؤں اور مساکین کے غم خوار اور امانت و صداقت کے علمبردار نظر آتےہیں، تو وہیں بعثت نبوی کے بعد ایک عظیم الشان داعی، غزوات اور سرایا میں ایک زبردست کمانڈر وسپہ سالار، ریاست مدینہ کے مایہ ناز سربراہ،ایک کامیاب جج، ایک کامیاب معلم، ایک کامیاب رہبر، ایک کامیاب سیاسی قائد کی ذات گرامی دکھائی دیتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ قرآن کریم کی عملی تفسیر ہے، قرآن اگر متن ہے تو سیرت اس کی تشریح، قرآن علم ہے تو سیرت اس کی عملی تطبیق، قرآن صحف ومابین الدفتین اور اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہے تو سیرت اس زندہ وجاوید پیکر جمیل کا نام ہے جس نے مکے کی گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے توحید کے نغمے سنائے اور مدینہ میں سلطنت مدینہ کی بنیاد رکھی جس نے اہل دنیا کو ایک منفرد طرز حکمرانی سے روشناس کروایا، یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے اس طرح بیان کیاتھا کہ کان خلقہ القرآن کہ آپﷺ چلتے پھرتے قرآن ہیں، ان ہی وجوہات کے سبب خالقِ کائنات نے رسول اکرم ﷺ کو تاقیام قیامت آئیڈیل اور بہترین اسوہ بناکر امت کے سامنے پیش کیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ﷺ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخرت کا امیدوار ہو اورکثرت سے اللہ کو یاد کرے۔(سورۃ الاحزاب) رسول اللہ ﷺ کی اتباع اور اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے دراصل اپنی خوشنودی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ قرار دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا۔(سورۂ آل عمران)اور جو شخص رسولﷺ کی اطاعت کرے گا،بےشک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔(سورۃ النساء)
لیکن مقام افسوس کہ آج ہم جس طرح مطالعہ سیرت سے غفلت برت رہے ہیں اور اس کے پیغام کو فراموش کررہے ہیں ،وہ شاید اس دور کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے، ہمیں پتا ہی نہیں کہ رسول رحمتﷺ کے اخلاق و عادات کیا تھے؟ رسول اکرمﷺ نے ازواج مطہراتؓ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اپنے دوستوں کے مابین آپﷺ کا کیا معاملہ تھا؟ کفار اور منافقین سے آپﷺ کا کیا رویہ تھا؟ ریاست مدینہ میں آپﷺ نے کیسی حکمرانی کی؟
آپ ﷺ کی رحمت ورافت، محبت وشفقت، خشیت وانابت، شجاعت و امانت، صداقت وعدالت، جود وسخا، فراست ومتانت، ایثار وقربانی، احساس ذمہ داری،حلم و تواضع، صبر وتوکل، نیز گھریلو زندگی میں بہترین ساتھی، شفیق سردار، مساکین کے سرپرست، اسی طرح قومی وملی زندگی میں عدل وانصاف، فوجوں کی کمانڈری، انتظامات حکومت، رعایا پروری، سیاسی سوجھ بوجھ، دوستوں کی دل داری، دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک وہ عظیم اخلاق و کمالات کہ جس کی بناء پر رب العالمین نے رسولِ رحمت ﷺ کو خلق عظیم کے مرتبے پر فائز کیا۔
یہ بات حقیقت ہے کہ سیرتِ طیبہ کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے ،لیکن موجودہ وقت میں اس کی اہمیت و معنویت اور ضرورت دوگنا ہوجاتی ہے، کیونکہ موجودہ دور گلوبلائزیشن اور عالمگیریت کا دور ہے، پوری دنیا کسی گلوبل سسٹم اور عالمگیر نظام کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی آسمان چھورہی ہے، ہر روز نئے نئے انکشافات نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں، مادیت کاسیلاب بلاخیز ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا، جدھر دیکھو سامان عیش ونشاط کی فراوانی ہے، شہرتوشہر اب دیہات بھی رفتہ رفتہ جدید سہولیات سے آراستہ ہورہے ہیں، لیکن ایک حیات انسانی کے، کہ جسے اجڑے ہوئے طویل عرصہ بیت چکا ہے، رواداری اور بھائی چارگی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے، اخوت و محبت امن اور خوشحالی کا جنازہ نکل چکا ہے، بلکہ وہ دور جاہلیت عود کر آیا چاہتا ہے ،جس کی بیخ کنی کے لیے رسول اللہ ﷺ کو مبعوث کیا گیا، جاہلیت، توہم پرستی، قتل و غارت گری، حق تلفی، غرض موجودہ دور جاہلیت کی منہ بولتی تصویر بن گیا ہے، ایسے پُرآشوب دور اور لادینیت زدہ ماحول میں پوری انسانیت مسیحائی و رہبری کی منتظر ہے۔
ان حالات میں ہمیں بس ایک شمع ایسی نظر آتی ہے جو اپنی کرنوں سے اس راہِ محبت میں چلنے والوں کی انگلی پکڑ کر انہیں منزل مقصود تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے اورجس کی روشنی میں ہر انسان کے لئے دنیا ہی کا نہیں، بلکہ آخرت کا بھی سامان نجات ہے، ایک ایسی چیز جس پر عمل کرنا آسان اور ایک ایسا سانچہ جس میں خود کو ڈھال لینا نہایت ممکن ہے، اور وہ حسین شمع یا زندگیوں کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرنے والا سانچہ’’سیرتِ طیبہ‘‘ ہے، کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ انسانیت کا سب سے بڑا بہی خواہ اگر کوئی ہے تو وہ ذات رسالت مآب نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی ہے۔
امت مسلمہ کی بالعموم اور علمائے دین کی بالخصوص یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اقوام عالم کی رہبری و امامت کا فریضہ انجام دیں جو کارنبوت کی تکمیل کے بعد ان کے سپرد ہے، لہٰذا امت کو درپیش عصری چیلنجز چاہے وہ مذہبی یا سیاسی، معاشی ہو یا معاشرتی، ہر ایک کے اسباب کا جائزہ لے کر سیرت طیبہ کی روشنی میں اس کا حل و تدارک اور لائحۂ عمل مرتب کرنا ہوگا۔
رسول اکرم ﷺ کے فضائل، شمائل اور خصائل کے علاوہ سیرت نبوی ﷺ کا جدید پہلوؤں سے مطالعہ کرنا، علمی، عملی، تحقیقی، تنقیدی، نقلی اور عقلی دلائل کی روشنی میں سیرت پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دینا ہوگا، ساتھ ہی ساتھ اس پہلو کو اجاگر کرنا ہوگا کہ دینِ اسلام قرونِ اولیٰ ہی نہیں، بلکہ ہر دور کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور مسائل کے حل اور پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے سیرتِ طیبہ کی طرف رجوع ہر دور کی ضرورت ہے۔
غیر مسلموں تک سیرت طیبہ کے اخلاقی و روحانی اور آفاقی پہلوؤں کو پہنچانے کے لئے سیرت رسول ﷺ کو صحیح اسلوب و منہج اور حالات زمانہ کے مطابق ہر زبان میں پیش کرنا ہوگا۔
عبادات اور شرعی احکام سے آگے بڑھ کر اجتماعی زندگی، سیاسی حکمت عملی اور دوسری اقوام کے ساتھ سلوک و تعلق کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ کےطرز عمل کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اگر آج دنیا مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی وروحانی ترقی چاہتی ہے اور وہ پرامن اور خوش حال زندگی کی خواہا ں ہے تو اسے آج سے ساڑھے چودہ سال پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا۔
ان سب کے علاوہ ہمیں پوری اہمیت کے ساتھ سیرت طیبہ کی روح کو سمجھنا ہوگا، اسے اپنے اخلاق و اعمال میں شامل کرنا ہوگا اور عملی طور پر اُسوۂ حسنہ کو فروغ دینا ہوگا کہ جب تک ہماری زندگیاں سیرت طیبہ کے مطابق نہیں ہوں گی، تب تک مادی ترقی کے تمام تر اسباب جمع ہونے کے باوجود ہم تنزلی کا شکار ہی رہیں گے۔
ایک مسلمان کے لیے مطالعہ سیرت کی ضرورت اظہر من الشمس ہے ،کیونکہ مسلمانوں کے لیے اسوۂ حسنہ صرف آنحضور ﷺ کی ذات گرامی ہے اور اس اسوۂ حسنہ کی تفصیلات جن ذرائع سے ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک تو قرآن پاک، دوسرے حدیث و سنت کے وہ ذخائر جن کے جمع کرنے اور مدون کرنے پر ہزاروں انسانوں نے اپنی زندگی وقف کردیں، تیسرا ذریعہ سیرت مبارکہ اور آپ ﷺکے وہ شمائل اور خصائل ہیں، جو سیرت کی مختلف کتابوں میں بالتفصیل نقل کردیئے گئے ہیں۔ اس لیے سیرت کے مطالعے کے بغیرکوئی چارۂ کار نہیں۔
قرآن پاک نے آنحضورﷺ کے ”رحمۃ للعالمین“ ہونے کا جو دعویٰ کیا ہے ، ایک انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ حیات طیبہ میں اس کی صداقت تلاش کرے اور حیات طیبہ سے متعلق پوری تفصیلات سیرت کی کتابوں میں درج ہیں۔ مطالعہ سیرت کی ضرورت اس پہلو سے اور بھی بڑھ گئی ہے کہ موجودہ دور ایک عالمگیریت کا دور ہے۔ پوری دنیا ایک عالمگیر نظام کی ضرورت محسوس کررہی ہے۔
انسانی خودساختہ نظام یکے بعد دیگرے ناکام ہورہے ہیں۔ پوری دنیا متبادل نظام کی ضرورت شدت سے محسوس کررہی ہے۔ یہ ضرورت اگر کوئی مذہب پوری کرسکتاہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ کیونکہ عالمگیر نظام کا نمونہ اگرکسی نے پیش کیا ہے تو وہ یہی اسلام ہے۔
گویا عالمگیر نظام برپا کرنے اور اسے صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لیے اگر کسی شخصیت کی زندگی صحیح رہنمائی کرسکتی ہے تو وہ صرف آنحضورﷺ کی حیاتِ طیّبہ ہے اور آپ ﷺکی پوری زندگی کی عکاسی سیرت کی کتابوں میں موجودہے۔مطالعۂ سیرت کی ضرورت اس پہلو سے بھی ہے کہ اسلام ہر دور میں اشاعت کے لحاظ سے ایک تیز رفتار مذہب رہاہے۔
یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ جن ادوار میں مسلمانوں کو سیاسی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور مادی اور عسکری اعتبار سے بہ ظاہر شکست ہوئی ان ادوار میں بطور خاص اسلام اور تیزی کے ساتھ پھیلا۔ یہ دین اسلام کی عظمت و صداقت اور سیرتِ طیبہ کا ابدی اعجاز ہے۔