تحریر: ڈاکٹر نعمان برلاس … نیوکاسل مریضوں کے علاج کے دوران شعبہ ریڈیالوجی میں کئے گئے ٹیسٹس اور ان کی رپورٹس میں ہونے والی غلطیوں پر بحث اور ان سے سیکھنا کم و بیش 12سال پیشتر ہمارے شعبہ میں سبھی اپنی ان غلطیوں کا سامنا کرنے سے خائف تھے۔ پھر اس پر دو آتشہ یہ کہ مجھے ہی اس فرض منصبی کو انجام دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔یعنی سب اپنی اور دوسروں کی غلطیاں مجھے بھجیں گے،میں غلطی کرنے والے کا نا م ظاہر کئے بغیر اسے سب کے سامنے پیش کروں گا تا کہ یہ جانا جا سکے کہ اس سے کیا سیکھا جا سکتا ہے اور دوبارہ اس سے کیسے بچا جا سکتاہے،ستم یہ کہ اس میں میری اپنی غلطیاں بھی شا مل ہوں گی ۔اس سب کا مقصد علاج کو بہتر سے بہتر بنانا اور اس عمل کو یقینی بنانا تھا اور ہے کہ کسی مریض کو علاج کے دوران ریڈیالوجسٹ کی غلطی سے نقصان نہ پہنچے۔کیونکہ مریضوں کے علاج سے متعلقہ بہت سے فیصلے انھیں ٹیسٹوں کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں ۔پچھلے ہفتے اسی سے متعلقہ کیمبرج میں ایک بڑی کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے اس عمل کی افادیت ایک بار پھر کھل کر میرے سامنے آ گئی۔ انگلستان آنے کے بعد میں اکثر اس پر غور وفکر کرتا تھا کہ ان لوگوں کی ترقی کی ’’ایک‘‘بڑی وجہ کیا ہے پھر اپنے شعبہ میں ’’غلطی کو ماننا اور اس سے سیکھنا‘‘ کی رہنمائی کے فرائض سر انجام دینے کے بعد یہ خیال راسخ ہوا کہ اس سبھاؤ نے ہی ان کی ترقی میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، یہ لوگ اپنی ہر غلطی چاہے وہ باہمی تعلقات سے متعلقہ ہو یا تحقیق، تعلیم ، علاج یا کسی بھی اور شعبہ سے تعلق رکھتی ہو اسکو مانتے ہیں ، اسے درست کرتے ہیں یا کم از کم درست کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور الزام تراشی سے پرہیز کرتے ہیں تا کہ اصلاح احوال میں خلل نہ آئے۔اس کی زندہ مثال میرے سامنے تھی. جن ڈاکٹرز نے اپنی غلطیوں کو مانا ان پر اپنے تئیں غور کیا اور مثبت رویہ اپناتے ہوئے مستقبل میں ان سے بچنے کا ارادہ کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مہارت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔انھوں نے نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی غلطیوں سے بھی استفادہ کیا۔ چند دن پہلےاستاد گرامی پروفیسر نواز انجم نے ہمیشہ کی طرح رہنمائی فرماتے ہوئے ایک پوسٹ ارسال کی کہ ایک شخص نے نیک بزرگ سے سوال کیا کہ مجھے کچھ پڑھنے کے لئے عطا کریں اس پر انھوں نے ہداہت کی کہ پہلے اپنے خیال اور نیت کی اصلاح کرو پھر ذکر کرو اور ا کے لئے الحمداللہ اور استغفراللہ ہی کافی ہے یعنی یا اللہ تُوجو میرے ساتھ کرتا ہے تیرا شکر ہے ’’الحمدو للہ‘‘اور جو کچھ میں کرتا ہوں تُو مجھے معاف فرما ’’استغفراللہ‘‘، لفظ استغفار کی تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایک لفظ کا ورد کرنے کی بات نہیں بلکہ اس لفظ میں وسیع مفہوم پنہاں ہےجس کا اصل مطلب اور مقصد سمجھے بغیر اس سے استفادہ مشکل اور شائد نا ممکن ہے۔رب تعالیٰ سے استغفار کا مطلب ہی یہی ہے کہ اس کے بتائے ہوئے طریقے سے انحراف کا بطور گناہ یا غلطی کے غیر مشروط اعتراف اور اس پر اظہارندامت کیا جائے پھر اس کے سا تھ ساتھ اسے دہرانے سے اجتناب کا وعدہ بھی کیا جائےتاکہ اس کی بنائی ہوئی دنیا اور مخلوق کو نقصان نہ ہو۔ استغفراللہ کے متعلق جاننے کی سعی میں حضرت علیؓ سے منسوب ایک دلچسپ واقعہ بھی نظر آیا۔ وہ بھی پیش خدمت ہے ،آپؓ ایک دن ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ میں بہت گناہ گار ہوں کوئی طریقہ بتلائیں کہ گناہ معاف ہو جائیں فرمایا استغفار کر،ابھی وہ گیا ہی تھا کہ ایک اور شخص آ گیا کہا کہ بہت مفلسی ہے کیا کروں،فرمایا استغفار کر، اسی نشست میں کوئی اور آیا بولا اولاد نہیں ہے کہا استغفار کر، اس پر حاضرین مجلس ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ ہر مرض کا ایک ہی علاج! اتنے میں ایک اور آدمی آیا بولا باغ لگایا تھا تباہ ہو گیا بولے استغفار کر، بعد ازاں مدینہ منورہ کے کسی قریبی گاؤں سے کچھ لوگ آن پہنچے اور بولے ہم نے ایک نہر کھودی تھی وہ خشک ہو گئی آپؓ نے پھر فرمایا استغفارکریں، اس پر محفل میں بیٹھے لوگ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ ہر چیز کا علاج استغفار؟ آپ نے جوابا” فرمایا کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا اور سورہ نوح کی آیات پڑھیں۔ پہلی آیت کو عنوان کے طور پر نقل کیا گیا ہے ۔ ان آیات کا ترجمہ کالم کے اختتام پر حاضر ہے۔ مسلمان اگر اس دنیا اور دین دونوں کے معاملات میں اپنی غلطی کا احساس کرے ( دین کے معاملات بھی اللہ رب العزت کی بڑھائی اور نبی آخر الزماںﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے دنیا سہی چلانے سے ہی متعلقہ ہیں وگرنہ رب تعالیٰ کو ہماری عبادات کی ضرورت نہیں ) اور اپنے رب کے سامنے جو پردہ پوشی کرنے والا ہے اس کا اقرار کرتے ہوئے اور استغفار کی روح کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے نہ دہرانے کا وعدہ کرے یعنی استغفراللہ کے ورد کے ساتھ ساتھ اس کا حق بھی ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ نہ صرف آخرت بلکہ اس دنیا میں بھی کامیاب اور کامران نہ ہو۔ سورہ نوح آیات 10-12 اور میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو۔ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔ تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لئے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لئے نہریں جاری کر دے گا۔