ڈی چوک پر آپریشن کے بعد سیکیورٹی فورسز پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کی، لیکن فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی پی ٹی آئی کارکنوں سے متعلق تحریک انصاف کے رہنما مختلف دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔
26 نومبر کی شام پی ٹی آئی کے کارکن ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، تاہم سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کرکے ڈی چوک کو پی ٹی آئی کارکنوں سے خالی کروا لیا۔
ڈی چوک میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران جان سے جانےوالے کارکنوں کی تعداد سے متعلق سب سے بڑا دعویٰ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی لطیف کھوسہ نے کیا۔
جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے لطیف کھوسہ نے کہا کہ 278 کارکن فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سییکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران ڈی چوک سے فرار ہوئے اور مانسہرہ پہنچ گئے، اگلے دن پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ڈی چوک میں فائرنگ سے ان کے سیکڑوں کارکن شہید ہوئے ہیں۔
سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی سلمان اکرم راجا نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ ان کے 20 کارکن شہید ہوئے ہیں، جن میں سے 8 کی تصدیق کا دعویٰ بھی کیا۔
پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران دعویٰ کیا کہ ڈی چوک میں فائرنگ سے ان کے 8 کارکن جان سے گئے۔
اسلام آباد کے 2 بڑے اسپتالوں، پمز اور پولی کلینک نے بھی ڈی چوک آپریشن کے دوران کی شہری کے دعووں کی تصدیق نہیں کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے اسپتالوں میں 6 شہریوں کی لاشیں موجود ہیں۔ پی ٹی آئی احتجاج کے دوران 4 سیکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مختلف دعوے اپنی جگہ لیکن حکومت کی طرف سے ابھی تک پی ٹی آئی کے کسی بھی کارکن کے جان سے جانے کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ وزیر داخلہ ہلاکتوں سے متعلق معلومات کےلیے پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔