مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے والد غازی الدین احمد، حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا، ڈاکٹر فقیر الدین ، دکن میں اپنے دَور کے مشہور معالج تھے۔ انھوں نے 1943ء میں میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کا اِمتحان بھی امتیازی نمبرز سے پاس کیا اور طلائی تمغہ حاصل کیا۔ بعدازاں، 1947ء میں جامعہ عثمانیہ سے بی ایس سی اوّل درجے میں پاس کرکے بھی طلائی تمغہ حاصل کیا۔
علاوہ ازیں، 1949ء میں ایم ایس سی میں بھی امتیازی نمبرز سے کام یابی کے بعد گولڈ میڈل کے حق دار قرار پائے۔ اور اُسی سال اُنھیں نظام کالج، حیدر آباد دکن میں لیکچرار مقرر ہوگئے۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ انگریزی زبان پررکھنے کے باوجود انھوں نے تمام تر تعلیم، حتیٰ کہ اعلیٰ تعلیم تک اُردو زبان میں حاصل کی۔
میٹرک سے ایم ایس سی تک اعلیٰ کارکردگی کی بِنا پر میرے والد کو نظام حیدرآباد کی طرف سے نہ صرف خصوصی وظیفہ ملتا رہا، بلکہ اُن کی فیس بھی معاف تھی اور کتابیں بھی ایک خاص فنڈ سے دی جاتی تھیں۔ پھر پی ایچ ڈی کے لیے لندن گئے، تو نظام حیدر آبادکے تعلیمی ٹرسٹ نے اُنھیں اِنگلستان جانے کا ٹکٹ فراہم کیا۔ 1954ء میں میرے والد کی شادی ڈاکٹر محبوب علی خان کی صاحب زادی، ڈاکٹر بانو بیگم سے ہوئی، جو ایم بی بی ایس کی ڈگری یافتہ تھیں۔
1965ء میں کراچی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے یونی ورسٹی میں اطلاقی کیمیا (Applied chemistry) پڑھانے کے لیے شریک پروفیسر کی حیثیت سے میرے والد کا تقرر کیا اور سال بھر میں صدرِ شعبہ مقرر کردیا۔ 1972ءمیں وہ پروفیسر کے منصب پر فائز ہوئے، تو جامعہ کراچی کیمپس میں اُنھیں کشادہ مکان مل گیا، جب کہ میری والدہ جامعہ کراچی کلینک سے بحیثیت جز وقتی لیڈی منسلک ہوگئیں۔ میرے والد کی کل اٹھارہ مطبوعات ہیں، جن میں سےچند اُردو اور انگریزی کی کتب، ٹیکسٹ بکس میں بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں، اُن کے متعدد مضامین اور مقالے ملکی و غیر ملکی سائنسی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔نیز، پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی زیور ِ طباعت سے آراستہ ہوچکا ہے۔ 1967ء اور 1968ء میں اُنہوں نے کیمسٹری کے نصابِ تعلیم میں سائنسی ترقی کے مطابق تبدیلیاں کیں۔ مزید برآں، وہ کئی سال تک کیمیا، فارمیسی، میڈیسن اور دیگر شعبۂ جات کی نصابی کمیٹیوں کے رکن بھی رہے۔ 1973ء سے 1974ء تک بحیثیت پروفیسر جامعہ کراچی،جرمنی کا دورہ کیا، جب کہ جامعہ سلیمانیہ، عراق میں بطور مہمان پروفیسر دو سال تعینات رہے۔ کئی سال تک ڈین شعبۂ سائنس بھی منتخب ہوتے رہے اور شان دار خدمات کے بعد 1987ء میں سبک دوش ہوئے۔
میرے والد کا شمار اِطلاقی کیمیا کے جیّد اساتذہ میں ہوتا تھاکہ اُنہیں اپنے مضمون سے والہانہ عشق تھا۔ دورِ معلمی میں دونوں ہاتھوں کو پیوست کر کے اُنگلیوں کے اِشاروں سے اِطلاقی کیمیا کے مضمون کی افادیت بہت مہارت سے اوربڑے خوب صورت پیرائے میں واضح کرتے۔ اُنہیں اپنی قومی زبان پر فخر تھا۔ گرچہ اُن کی ساری تعلیم و تربیت اُردو میں ہوئی، مگر اُنہوں نے پی ایچ ڈی اِنگلستان سے کیا۔
آج نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی میرے والد، پروفیسر ڈاکٹر غازی الدین احمد کے ہزارہا شاگرد مختلف اِداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز اور علمی ، تحقیقی اور سائنسی روایات کی پاس دری کرتے ہوئے وطنِ عزیز کی خدمت میں شبانہ روز مصرفِ عمل ہیں۔ یہ اُنہی کا فیضانِ نظر ہے کہ دنیائے کیمیا کے طلبہ اُن کے مِشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔اللہ رب العزّت میرے والد کے درجات بلند فرمائے، آمین ۔ (ڈاکٹر ناہید غازی، سول سرجن)
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار
برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭گھروندا کیسے ٹوٹا، شجرِ نازک (صبا احمد)٭حج کی سعادت (راشدہ فصیح، فیڈرل بی ایریا، کراچی)٭موت کا دن (خواجہ محمد ارشدہجیرہ، پونچھ، آزاد کشمیر)٭ قدرت کا انتقام (ڈاکٹر افشاں طاہر، گلشنِ اقبال، کراچی)٭ ایک ورکنگ وومن کی کہانی (سعید اقبال، کراچی)٭ سرخالد زندہ ہیں (لجپت رائے متلانی)٭انوکھی واردات (شکیلہ ملک، اسلام آباد)٭اور مَیں نےٹکڑے ٹکڑے کردیئے (جمیل احمد اعوان ، ملتان روڈ، لاہور)٭بادشاہ سلامت سے ملاقات (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، باغ بان پورہ، لاہور)۔
برائے صفحہ’’ متفرق‘‘
٭مَیں جنگ کیوں پڑھتا ہوں (پروفیسر ڈاکٹر سیّد وسیم الدین، کراچی)۔٭ قائدِ اعظم ریذیڈینسی، زیارت+میرا شہر، سوہدرہ، ایک تاریخی سرزمین (حکیم راحت نسیم سوہدروی)۔٭یومِ شہادت سیدنا عثمان غنیؓ (مولانا محمد عمر قاسمی)۔
برائے صفحہ’’ اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘
٭جب زندگی کی بازی اُلٹ گئی (آسیہ پَری وش، حیدر آباد) ٭پیاری بچّی صفیہ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)٭نصیر احمد شہید (فوزیہ ناہید سیال، لاہور)۔