مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
موجودہ دَور میں جہاں لوگوں کو اَن گنت مسائل نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، وہیں ایک افسوس ناک اور عمومی رویّوں کی بدصورتی بھی ہے۔ جیسا کہ کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد یا عناد کی وجہ سے دوسروں کے لیے ذہنی اذیت اور تکلیف کا باعث بنتے ہیں اور اس بات کا بالکل خیال نہیں کرتے کہ اس منفی عمل سے کسی کی دل آزاری ہوسکتی ہے یا کوئی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ دو سال قبل میرے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جو قارئین کی نذر ہے۔
میرا کلینک، میری رہائش سے کافی دُور واقع تھا، جس کی وجہ سے آمد و رفت میں خاصا وقت لگ جاتا تھا، لہٰذا کلینک کے لیے گھر کے قریب ہی کسی اچھی اور معقول جگہ کی تلاش میں تھا۔ اس سلسلے میں، مَیں نے کچھ لوگوں سے کہہ بھی رکھا تھا، اُن ہی میں ایک ساجد نامی میکینک بھی تھا۔
اُس سے میری بڑی اچھی سلام دعا تھی۔ ایک روز اُس نے فون پر بتایا کہ ’’ایک بہت ہی اچھی دکان کرائے کے لیے خالی ہے، آپ فوراً اُس کے مالک، فرید صاحب سے مل لیں۔‘‘ اُس نے جو لوکیشن بتائی، اس کے مطابق وہ دکان میری رہائش کے قریب، مین کمرشل روڈ پر تھی۔
مَیں نے ساجد کا شکریہ ادا کیا۔ دوسرے ہی روز فرید صاحب سے ملنے چلا گیا اور ساجد کا حوالہ دے کر کہا کہ ’’میرا ایک ہومیو پیتھک کلینک، ٹیچنگ اور کائونسلنگ کا چھوٹا سا سیٹ اَپ ہے۔ فی الحال موسمیات، یونی ورسٹی روڈ پر پریکٹس کررہا ہوں اور چاہتا ہوں رہائش کے قریب ہی کوئی دکان، مناسب کرائے پر مل جائے۔‘‘ ہومیو کلینک کا سنتے ہی فرید صاحب خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’پھر دیر کس بات کی ہے، ابھی آجائیں۔‘‘
جواب بڑا غیر متوقع اور حیرت انگیز تھا، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یا تو اس طریقہ علاج پر اُن کا اعتقاد بہت زیادہ ہے یا پھر اُنھیں فوری کرائے دار کی ضرورت ہے۔ بہرحال، مَیں نے بہت خوش اور مطمئن ہوکر دکان دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دکان میری توقع سے زیادہ اچھی تھی۔ جگہ بھی پرسکون تھی، ٹریفک وغیرہ کا شور نہیں تھا۔
کلینک کے لیے ایسی ہی جگہ مناسب سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی دکان کو بیچ میں ایک دیاوار بنا کر دو حصّوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ پیچھے کے حصّے میں (جو زیادہ بڑا تھا) اُن کا گودام تھا۔ چوں کہ برابر والی دکان بھی اُن ہی کی تھی، تو وہ گودام میں جانے کے لیے اُسی دکان سے کام چلا رہے تھے۔ مجھے دکان اپنی توقع سے بھی زیادہ پسند آئی۔ اس کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس کی چوڑائی اور اونچائی میری دکان کے شیشے والے پارٹیشن کے عین مطابق تھی۔ میں خوشی سے سرشار واپس فرید صاحب کے پاس چلا آیا اور دکان کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا۔
ایک رسمی سی بارگیننگ کے بعد کرایہ طے ہوگیا، تو انہوں نے کہا۔ ’’آپ کل 6ماہ کا ایڈوانس اور ایک ماہ کا کرایہ لے کر آجائیں، مَیں ایگریمنٹ بنواکر رکھوں گا، اس کے بعد آپ مجھ سے چابی لے جائیے گا۔‘‘ مَیں انتہائی مسّرت کے ساتھ گھر آگیا۔ دوسرے دن صبح ہی صبح میرے موبائل فون پر کسی شخص کا فون آیا اور اپنا تعارف کروانے کے بعد کہنے لگا۔ ’’آپ نے کل جو دکان لینے کی بات کی ہے، وہ تو مَیں پہلے ہی لے چکا ہوں۔‘‘
مَیں نے حیرت سے کہا۔ ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے، دکان کے مالک فرید صاحب نے تو مجھے آج ایڈوانس اور پیشگی کرائے کے لیے بلایا ہے۔‘‘ تو اُس نے کہا۔ ’’آپ کل اُسی جگہ آجائیں، وہیں تفصیل سے بات ہوگی۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’مَیں آج ہی آرہا ہوں۔‘‘ جس پر اس نے بھی آمادگی کا اظہار کردیا۔ وہاں جانے سے قبل مَیں نے فرید صاحب کو فون کیا، لیکن انہوں نے اٹینڈ نہیں کیا، میں بہت کش مکش اور پریشانی کے عالم میں دکان پہنچا تو فون پر بات کرنے والا شخص وہاں پہلے سے موجود تھا اور دکان کی چابی اس کے ہاتھ میں تھی۔
یہ دیکھ کر میری پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مَیں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے رسماً ہاتھ ملایا، تو کہنے لگا۔ ’’مَیں نے آپ کی بھلائی کے لیے آپ کو بلایا ہے، ویسے تو میں یہ دکان لے چکا ہوں، لیکن اگر آپ چاہیں، تو ہم دونوں مل کردکان کے درمیان پارٹیشن کرکے گزارہ کرسکتے ہیں، اس طرح کرایہ بھی دونوں میں تقسیم ہوجائے گا اور دونوں کا کام بھی چل جائےگا۔‘‘
اس کی عجیب و غریب تجویز پر مَیں بہت حیران ہوا اور غصّے سے کہا۔ ’’یہ تم کس قسم کی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم نے اس لیے مجھے بلایا ہے، تو مَیں ہرگز نہیں آتا۔‘‘ مجھے اشتعال میں دیکھا، تو بولا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! زیادہ غصّہ نہ کریں، چلیں ایسا کرتے ہیں کہ استخارہ کرلیتے ہیں، جس کا بھی نام آجائے، دکان اسی کی۔‘‘ اب تو میرا صبر کا پیمانہ لب ریز ہوگیا۔
مَیں نے کہا۔ ’’بات دکان کی ہے، رشتے کی نہیں کہ استخارہ کیا جائے، میرے خیال میں تمہارا دماغی توازن ٹھیک نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر سیدھا فرید صاحب کی دکان پر چلا گیا۔ وہ وہاں موجود تھے، مَیں نے پھولی سانسوں میں ساری بات انہیں بتائی،تو سن کرچپ سے ہوگئے، چہرے سے کچھ شرمندگی اور پریشانی بھی صاف عیاں تھی، پھرکہنے لگے۔ ’’کیا کروں ڈاکٹر صاحب! سچی بات تو یہ ہے کہ مَیں آپ ہی کو دکان دینا چاہتا تھا، ایگریمنٹ بھی بننے کے لیے دے دیا تھا، لیکن اِن صاحب سے بھی میری بڑی پرانی جان پہچان ہے۔
ہم دونوں ایک ہی اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں، اپارٹمنٹ سے کچھ ہی فاصلے پر ان کی الیکٹریکل آئٹمز اور ریپیئرنگ کی دکان موجود ہے۔ انھوں نے کبھی میری دکان کرائے پر لینے کی خواہش ظاہر نہیں کی، مجھے حیرت ہے کہ اُسے جیسے ہی آپ کو دکان دینے کا معلوم ہوا، اس نے اچانک میری دکان کرائے پر لینے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے چند ہم خیال لوگوں کو لاکر مجھ پر بہت دبائو ڈالا کہ دکان مجھے دے دو، ساتھ آنے والے لوگ بھی اس کی حمایت میں مجھے مجبور کرتے رہے، مَیں زیادہ کھل کر آپ سے بات نہیں کرسکتا۔
بس، یوں سمجھ لیں کہ ان لوگوں کی شہرت کچھ اچھی نہیں ہے، اور آج کل کے جو حالات ہیں، آپ مجھ سے زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں، مَیں بچّوں والا آدمی ہوں اور میری رہائش اور روزگار شروع ہی سے یہیں ہے، مَیں کسی سے دشمنی نہیں مول لے سکتا، بہت بے بس ہوں اور آپ سے بہت شرمندہ بھی، پھر بھی آپ مایوس نہ ہوں، ان شاء اللہ آپ کے لیے کوئی سبیل ضرور نکال لوں گا۔ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ اسی علاقے میں کوئی نہ کوئی دکان دلوادوں گا۔‘‘ ظاہر ہے اُن کا عذر سننے کے بعد میں کیا کرسکتا تھا، افسردگی اور مایوسی کی حالت میں اپنے کلینک چلا گیا۔
اس واقعے کے بعد اُس شخص نے اپنی پہلی والی دکان سے بہت سا سامان لاکر نئی دکان میں بھر دیا۔ نئی دکان پر زیادہ توجّہ مرکوز کرنے کی وجہ سے پہلی دکان کے کسٹمرز بھی اِدھر اُدھر ہوگئے۔ اس کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ نئی دکان میں منتقل ہوکر پرانی دکان ختم کردوں گا، کیوں کہ وہ بہت بڑی تھی اور اس کا کرایہ بھی زیادہ تھا۔
وہ اسی خوش فہمی میں رہا اور معاملہ اس کے برخلاف ہوگیا۔ دونوں دکانوں کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا اور اسی طرح کئی ماہ گزر گئے۔ اُسے مسلسل خسارہ ہونے لگا۔ ایڈوانس بھی اُس نے تعلقات اور دبائو کی وجہ سے صرف 3ماہ کا دیا تھا۔ جب فرید صاحب کرائے کا تقاضا کرتے، تو جواب میں یہی کہتا کہ ایڈوانس سے منہا کرلیں، اس طرح ایڈوانس کے پیسے بھی ایڈجسٹمنٹ کی مَد میں ختم ہوگئے۔
اُس کے بعد فرید صاحب نے کرائے کا تقاضا کیا تو کہا۔ ’’آپ دیکھ رہے ہیں، میری دکان ابھی تک زیرو پر جارہی ہے، بجلی کا بَل اور دیگر اخراجات کے لیے بھی پیسے نہیں نکل رہے، گھر سے لے کر دینے پڑتے ہیں، بار بار تقاضا مت کیا کریں، جب کاروبار صحیح سے چلے گا، تو پورا کرایہ یک مشت ادا کردوں گا۔‘‘
فرید صاحب خاموش ہوجاتے اور صبر کرکے بیٹھ جاتے، لیکن اب خود اس کی ذہنی کیفیت خراب ہونا شروع ہوگئی، معمولی باتوں پر آس پاس کے دکان داروں سے الجھ پڑتا، کبھی خودکلامی کرتا ہوا نظر آتا، کبھی دکان خالی چھوڑ کر قریبی درخت کے نیچے بیٹھ جاتا۔ گرمی زیادہ لگتی، تو شرٹ تک اتاردیتا۔ یہ تمام باتیں مجھے وہی میکینک بتاتا اور کبھی کبھی آتے جاتے خود میری بھی نظر پڑتی، تو اس کی حالت پر ترس آتا۔
عیدالاضحی کے چوتھے روز مَیں اُدھر گزر رہا تھا، تو اسی میکینک سے میرا سامنا ہوگیا، کہنے لگا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! ایک بڑی افسوس ناک خبر ہے، وہ الیکٹریکشن، جس نے آپ کی لی ہوئی دکان دھونس، دھمکی سے لے لی تھی، اُس کا انتقال ہوگیا۔‘‘ یہ سن کر مجھے بہت دکھ ہوا، مَیں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’کب، کیسے ؟‘‘ تو کہنے لگا ’’عین بقرعید والے دن، صبح نماز کے لیے جب اُسے اٹھانے کی کوشش کی گئی، تو وہ مردہ حالت میں ملا، معلوم نہیں رات کس پہر اُس کا انتقال ہوگیا۔
یہ سن کر مجھے سخت افسوس ہوا۔ اُس کا اور فرید صاحب کا چہرہ اور بات چیت ذہن کی اسکرین پر فلم کی طرح چلنے لگی۔ اتنے میں میکینک کی آواز پر چونکا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! اُسے شاید آپ کی بددعا لگ گئی ہے۔‘‘ مَیں نے فوراً ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’’خبردار! ایسی بات کبھی نہ کہنا۔ مَیں نے آج تک کسی کو بددعا نہیں دی، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اُن دونوں کے رویّے سے میرا دل ضرور دکھا تھا۔‘‘بہرحال، گھر آکر مَیں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ کیا واقعی اُس شخص کی غلطی یا گناہ اتنا سنگین تھا کہ جس کی سزا اُسے موت کی صورت ملی۔ (ڈاکٹر شمیم نوید، گلشن اقبال، کراچی)