(گزشتہ سے پیوستہ)
لاہور میں لیڈی میکلگن اسکول کا آغاز ایک چھوٹے سے تعلیمی ادارے کے طور پر ہوا۔ گوروں نے لاہور میں کئی شاندار اسکولز 1900ء کی دہائی میں قائم کئے تھے ان میں لیڈی میکلگن ہائی اسکول، وکٹوریہ ہائی اسکول، سیکرڈ ہارٹ ہائی اسکول، کنیئرڈ اسکول، کوئین میری اسکول (بعد میں کالج بھی) کانوینٹ آف جیسس اینڈ میری شامل ہیں جبکہ انجمن حمایت اسلام نے بھی لڑکیوں کے لئے کئی اسکولز قائم کئے تھے ان پر پھر بات کریں گے۔
لیڈی میکلگن اسکول کے اندر آج بھی 1859ء کے دروازے اور فرنیچر پڑا ہوا ہے۔ ایک دور تھا کہ اس اسکول میں داخلہ نہایت مشکل ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں وقت کے ساتھ ساتھ گوروں کے قائم کردہ ہر تعلیمی ادارے کا معیار ہم نے گرا دیا۔ سیکرڈ ہارٹ ہائی اسکول کی ڈیڑھ سو سالہ عمارت آج بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ یہ اسکول بالکل شہر کے وسط اور جی پی او کے نزدیک واقع ہے۔ اس اسکول کے بارے میں پھر بتائیں گے۔
آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ لیڈی میکلگن ہائی اسکول میں آج بھی 1859ء کا کھجور کا ایک درخت موجود ہے۔ اسکول کے مرکزی ہال اور عمارت میں فری میسن ہال کی عمارت تھی اور اس کو میسونک لاج نمبر 1084 لاج روڈکہا جاتا تھا اور یہاں 1920ء تک لاج رہا۔ پھر یہ فری میسن ہال مال روڈ پر منتقل ہوگیا۔ اس عمارت کو جادو گھر بھی کہا جاتا تھا ایک مدت تک یہ عمارت جادو گھر کے نام سے مشہور رہی۔ جب ہم کالج میں زیر تعلیم تھے تو اس عمارت میں یہودی رہا کرتے تھے اور یہ ہمیشہ سے پراسرار سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ لاہور میں فری میسن ہال کے اندر کسی کو جانے کی اجازت نہ دی تھی اور یہاں پر ہمیشہ پراسرار لوگ نظر آتے تھے۔ بہر حال ضیاء الحق کے دور میں یہاں سے سب لوگ چلے گئے اور اس فری میسن ہال کو حکومت پنجاب نے مختلف دفاتر کےلئے استعمال کیا۔ اب یہ وزیر اعلیٰ کا دفتر بھی ہے۔ ویسے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اپنے کئی دفاتر بنائے ہوئے تھے اس لاہور میں حنیف رامے جیسے درویش منش وزیر اعلیٰ بھی رہے جو دفتر لارڈ صاحب میں بیٹھا کرتے تھے اور 7کلب روڈ پر ان کی رہائش ، اوپر اور نیچے بھی ایک دفتر تھا۔ شہباز شریف نے کئی وزیر اعلیٰ ہائوس بنا کر قوم کے کروڑوں روپے ضائع کئے تھے۔
لاہور میں 1859ء میں فری میسن کا دفتر ایشیا کا ہیڈ آفس بھی تھا ۔ یہ لاہور کا پہلا میسونک ٹیمپل تھا اس زمانے میں کوئی یقین کرسکتا تھا کہ یہ سارا علاقہ جسے آپ اب 90 دی مال اور وزیر اعلیٰ ہائوس بھی کہتے ہیں یہاں پر باغات تھے اور بہت وسیع اور کھلا علاقہ تھا۔ لیڈی میکلگن اسکول کی عمارت کسی زمانے میں سفید اور نیلے رنگ کی تھی۔ پھر پیلے اور سفید رنگ کی کر دی گئی۔ اس عمارت کے ارد گرد ایک بہت وسیع باغ تھا جہاں پر کھجور اور دیگر درخت تھے۔ آج یہاں پر کھجور کے دو قدیم ترین اور ایک برگد کا درخت رہ گیا ہے۔ یہ تینوں درخت دو سو سال قدیم ہیں اورر وایت کے مطابق ان عمارات میںیہ درخت اسکول سے بھی پہلے کے ہیں بقول ڈاکٹر سیدہ تہذیب علوی کے اسکول کے تین نسلوں کے ملازمین کے بقول یہ درخت دو سو برس پرانے ہیں۔ ہم نے ماضی میں اس عمارت کو کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ عمارت لاہور کی ان چند عمارات میں سےایک رہ گئی ہے جو بہت حد تک آج بھی اپنی اصل شکل و صورت میں ہے البتہ وقتاً فوقتاً مرمت ہونے سے یہ عمارت بہتر حالت میں ہے سرایڈورڈ ڈگلس میکلگن کی اہلیہ ایڈتھ مارونی نے اس اسکول کو بنانے میں کافی محنت کی تھی۔
بہرحال لاہور ایک ایسا شہر ہے جس کے بارے میں آپ جتنا جانتے ہیں آپ کی دلچسپی اور لگائو اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔ لاہور سے تو عشق ہر کسی نے کیا ہے۔ فری میسن 1917ء تک رہا اس کے بعد یہ اپنی نئی عمارت میں لاج ہائوس آگیا تھا جو آج بھی مال روڈ پر موجود ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اسکول کی توسیع اور بہتری کے لئے سرگنگا رام نے ایک عمارت تعمیر کرائی تھی جو آج بھی موجود ہے۔ سرگنگا رام واقعی لاہور کے محسن تھے۔ انہوں نے لاہور میں بے شما ر عمارات تعمیر کرائیں اور پھر ان کی سمادھی بھی لاہور میں ہے۔ اس پر پھر بات کریں گے۔ سرگنگا رام والی عمارت میں کبھی کلاسیں ہوا کرتی تھیں۔ مگر اب یہ مکمل زیر استعمال نہیں۔ البتہ اس عمارت کا گرائونڈ فلور سائنس لیب کے طور پر آج بھی زیر استعمال ہے۔ 1974ء میں اس تاریخی عمارت میں فری میسن ہال کی تمام نشانیاں اور نوادرات کو یہاں سے ختم کردیا گیا تھا حالانکہ فری میسن کا لوگو اور کئی قابل ذکر چیزیں یہاں پر موجود تھیں۔ فری میسن کے مخصوص اسٹارز دیگر مخصوص نشان یہاں موجود تھے۔ ہم نے ان کا ایک عقاب پیتل کا یہاں پر دیکھا تھا اب وہ عقاب وزیر اعلیٰ ہائوس یعنی فری میسن کی نئی عمارت میں ہے۔ صرف ایک پلیٹ ابھی اس عمارت میں موجود ہے۔ ہمارے خیال میں یہ غالباً لاہور کا واحد اسکول ہوگا جس کے پاس 1928ء کے داخلہ رجسٹرڈ آج بھی موجود ہیں۔ ظاہر ہے ان رجسٹروں کی حالت اب اتنی اچھی نہیں ہوگی مگر اسکول کے پاس اتنا پرانا ریکارڈ ہونا ایک اعزاز کی بات ہے اور 1931ء سے تو پورا مکمل داخلہ ریکارڈ ہے۔
قارئین کے لئے یہ بات بڑی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اس اسکول کی بچیوں کا میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کے پاس بھی اس کا ریکارڈ ہے اور بقول ڈاکٹر سیدہ تہذیب 1928ء سے ہماری بچیاں ریگولر میٹرک کا امتحان دیا کرتی تھیں۔ کبھی پنجاب یونیورسٹی میٹرک اور ایف اے/ ایف ایس سی کا امتحان بھی لیا کرتی تھی۔ ہم خوش قسمتی سے ایسے کئی افراد کو مل چکے ہیں جن کے پاس میٹرک اور ایف اے کا پنجاب یونیورسٹی کا سرٹیفکیٹ تھا اور وہ سرٹیفکیٹ ہم نے دیکھے بھی ہیں۔کاش ہماری حکومت ان تاریخی اسکولوں کی عمارات اور دستاویزات کو محفوظ کرتی۔ یہ بہت بڑا خزانہ ہے لاہور کے کئی تاریخی اور قدیم اسکولوں میں جو قیمتی دستاویزات تھیں وہ زیادہ تر تباہ ہو چکی ہیں۔ خصوصاً جو تعلیمی ادارے گوروں نے بنائے تھے۔ ہم نے ان کا ریکارڈ صرف انگریزوں سے نفرت کی بنا پر ضائع کردیا یا اس کی حفاظت نہیں کی۔ (جاری ہے)