• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشتگردوں کا خاص ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں ۔دہشتگردوں کا نیٹ ورک تہہ در تہہ ہے ۔ اس نیٹ ورک کا ایک حصہ خود کش اسکواڈز پر مشتمل ہے ۔انکے ٹرنینگ کیمپ پاکستان کی حدود سے باہر خصوصاً افغانستان میں ہیں۔یہ اسمگلنگ ڈرگز اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کرنیوالوں پر مشتمل ہیں ۔یہ لوگ سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں انکا مقصد سکیورٹی فورسز کا مورال ڈائون کرنا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کرناہے کہ دہشتگرد سکیورٹی فورسز سے زیادہ طاقتور ہیں ۔ پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز 1980ء کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران اُس وقت ہوا جب پاکستان نے افغانستان میں سو ویت یونین کے خلاف مزاحمت کیلئے امریکہ اور عالمی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کیا، افغان جہاد کے بعد یہ گروہ ملک کے اندر مختلف شدت پسند تنظیموں کی شکل اختیار کر گئے۔ 2001ء کے حملوں کے بعد دہشتگردی نے شدت اختیار کرلی اور امریکہ نے اپنی سر زمین پر دہشتگردی میں ملوث تنظیموں کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا ۔ پاکستا ن نے امریکہ کے ساتھ مل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی جسکا نشانہ افغانستان تھا ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میںپاکستان کو اپنی سر زمین پر خود کش حملوں ،بم دھماکوںاور مسلح کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔جس نے نہ صرف ملکی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا یابلکہ ہزاروں معصوم جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ دو دہائیوں کے بعد افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے باوجود پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں جاری ہیں ۔ اعدادو شمار کے مطابق 2001ء سے لیکر 2019ء تک پاکستان میں دہشتگردی کی وجہ سے تقریبا 65 ہزار افراد جاں بحق ہوئے جن میں7 ہزار کے قریب سکیورٹی اداروں کے اہلکارشامل تھے۔ 2001ء سے 2023ء تک پاکستان کو ایک محتاط اندازےکے مطابق 127بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔

2020ء کے قریب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے ملک میں دہشتگردی پر قابو پالیا تھا لیکن 15اگست 2021ء کو افغانستان میں افغان طالبان کو اقتدار کی کرسی سونپ دی گئی ۔ اس کے بعد پاکستان کے ہزاروں کی تعداد میں قیدیوں کوافغانستان کی جیلوں سے رہا کر دیا گیاجنہوں نے واپس پاکستان آکر اپنے آپ کو منظم کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ دھماکے شروع کر دیئے ۔اسی دوران حکومت پاکستان نے اس تنظیم کے ساتھ مذاکرات کیے اور سیز فائر کرنے کامعاہدہ کیا۔

اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں جس میں افغانستان اور بھارت ملوث ہیں لہٰذا ملک کے خلاف بیرونی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعے یا نفرت کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ پاکستان نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیںکیا اور نہ ہی اسکے علاقے پر زبردستی قبضہ کیاہے ۔ پاکستان نے افغان ٹریڈ کو بھی قانون کے مطابق جاری رکھا ہے ۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کاساتھ دیا ہے ۔ چالیس برس گزر جانے کے باوجود لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دے رکھی ہے۔

پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے میرے نزدیک پاکستان اور افغانستان میں بھائی بھائی کا رشتہ ہونا چاہیے ۔ خدا کرے جلد ایسا ہو ۔یہ دنیا میں امن کیلئے اور اسلام کی وسعت کیلئے بہت اہم ہے ۔ ضلع کرم میں عدم استحکام کی یہ صورتحا ل نئی نہیں اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی طرف سے اس مسئلے کے مستقل حل کیلئے اب تک ایسی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی جسکے نتیجے میں وہاں امن قائم ہوسکے ۔اس علاقے میں عسکریت پسندی ،قبائلی تنازعات اور فرقہ واریت نے ایسا ماحول پیدا کر رکھاہے جسکی وجہ سے مقامی لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں ۔کرم کے لوگ اس عدم استحکام سے تنگ ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مابین جو سیاسی رسہ کشی جاری ہے اسکی وجہ سے یہ علاقہ اور اس کے مسائل مسلسل نظر انداز ہو رہے ہیں ۔ دہشتگردی کے حل کیلئے سکیورٹی ایکشن پلان اداروں کی استعداد اور کارکردگی بہتر بنانے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے ۔دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانا ضروری ہے ۔

حالیہ نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں دہشتگرد تنظیموں کے خلاف بلوچستان میں جامع فوجی آپر یشن کی منظوری دی گئی لیکن خیبر پختونخوا میں موجود دہشتگرد گروپوں کو نکیل ڈالنے کی حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ کمیٹی کے اجلاس سے آرمی چیف نے اپنے خطاب میں دہشت گردوں اور انتشار پسندوں کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آئین ہم پر پاکستان کے اندرونی اور بیرونی تحفظ کی ذمہ داری عائد کرتا ہے، جو کوئی بھی پاکستان کے تحفظ میں رکاوٹ بنے گا اور ہمیں اپنا کام کرنے سے روکے گا اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ دہشتگرد چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی موجودگی کو محسوس کریں اور ان پر دہشت طاری رہے۔اس علاقے میں جتنے بھی زمینی اور قبائلی تنازعات ہیں انہیں حل کرنے کیلئے مقامی عمائد ین سے مدد لی جانی چاہیے اور فرقہ وارانہ مسائل کے حل کیلئے تمام مسالک کے اہم علما کو اکٹھا کیا جانا چاہیے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ باہمی سیاسی آویزش کو چھوڑ کر کرم کے مسائل پر توجہ دیں اور ان مسائل کا مستقل حل مہیا کریں ۔یہ درست ہے کہ ہماری ان قربانیوں کا اب عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جانے لگا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین