ایک وقت تھا جب بینک منیجرز اپنے کسٹمرز سے زیادہ سے زیادہ ڈپازٹس بینک میں رکھنے کی درخواست کرتے تھے اور منیجرز کو ٹارگٹ دیئے جاتے تھے جنکے حصول پر اُن کی ترقیاں ہوتی تھیں لیکن بینکوں کو اسٹیٹ بینک قوانین کے مطابق ڈپازٹس کا 50فیصد اپنے کسٹمرز کو قرضے دینے پڑتے تھے مگر اس قانون پر بہت سے بینک عمل نہیں کررہے تھے اور اُن کا ایڈوانس ڈپازٹ تناسب (ADR) بمشکل 40فیصد تھا جس میں حبیب بینک 38، بینک آف پنجاب 40 فیصد اور بینک الفلاح 42فیصد قابل ذکر ہیں جس کی وجہ سے حکومت نے 2024-25بجٹ میں اُن بینکوں جن کا 31 دسمبر 2024ءتک ADR یعنی اُن کے ڈپازٹ اور قرضوں کا تناسب 50 فیصد سے کم ہے،پر 15فیصد ٹیکس عائد کیا تھا جس پر 12سے زائد نجی بینکوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کیا اور 14نومبر کو ہائیکورٹ نے اس ٹیکس کی وصولی روکنے کیلئے حکم امتناعی جاری کیا ہے جس سے حکومت کو تقریباً 197ارب روپے کم ریونیو وصول ہوگا جو FBR کیلئے اچھی خبر نہیں کیونکہ FBR کو پہلے ہی 200ارب روپے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے جس پر IMF نے بھی اپنی جائزہ میٹنگ میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔
حکومت کی جانب سے نجی بینکوں کے ADR پر 15فیصد ٹیکس عائد کرنے پر بینکوں نے ایک ارب روپے سے زائد ڈپازٹس ہولڈرز کے اکائونٹس پر 5سے 6فیصد ماہانہ فیس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مثلاً اگر کسی کسٹمر کا ڈپازٹ 5ارب روپے ہے تو اُسے مہینے کے آخر میں 5فیصد فیس کے حساب سے 25کروڑ روپے بینک کو دینے ہوں گے۔ اِسی مد میں چند بڑے بینکوں نے 5سے 6 فیصدماہانہ فیس عائد کی ہے جبکہ میزان بینک جس کے ڈپازٹ سب سے زیادہ ہیں، کو ADR پر زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے میزان بینک نے اپنے اکائونٹ میں ایک ارب روپے سے زائد ڈپازٹس پر5فیصد فیس عائد کی ہے۔ حکومت کے 15فیصد ADR ٹیکس سے بچنے کیلئے بینکوں نے اپنے قرضے بڑھائے ہیں جواکتوبر 2024ءتک 1.1 کھرب تک پہنچ گئے ہیں جس سے ان کا ADR تناسب 39فیصد سے بڑھ کر 44فیصد تک پہنچ گیا ہے جس کو بینکوں کو 31دسمبر 2024ءتک 50فیصد تک لانا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی ہدایت ہے کہ SMEs، زراعت، کیپٹل مارکیٹ کے شعبوں کو ترجیح دی جائے۔ ADR کے ٹیکس سے بچنے کیلئے بینکوں نے اپنے ڈپازٹس میں بھی کمی کی ہے اور 25 اکتوبر 2024ءکو ان کے مجموعی ڈپازٹس 31.14 کھرب روپے سے کم ہوکر 30.4کھرب روپے ہوگئے ہیں۔ بظاہر حکومت کا مقصد پرائیویٹ سیکٹر کو قرضے دینے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے لیکن اس کا اصل مقصد منافع کمانے والے بینکوں سے زیادہ ریونیو حاصل کرنا ہے مگر اس پالیسی سے مانیٹری سسٹم میں بگاڑ پیدا ہوگا۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صرف 21فیصد آبادی بینک اکائونٹ رکھتی ہے جن میں خواتین کے اکائونٹ صرف 13 فیصد ہیں جبکہ دنیا میں 76 فیصد افراد بینکنگ سہولتیں رکھتے ہیں۔ پاکستان کے بینکنگ سیکٹر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 2023ءمیں پاکستانی بینکوں کے منافع میں 90 فیصد، اثاثوں میں 32 فیصد، ڈپازٹس میں 26فیصد، نان پرفارمنگ قرضوں (NPL) میں 12فیصد اضافہ ہوا جبکہ نجی شعبے کے قرضوں میں صرف 4فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان بینکنگ نظام میں اسلامک بینکنگ کا حصہ 22 فیصد ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بینکوں کے ریکارڈ 90 فیصد منافع کمانے کی وجہ نجی شعبے کو قرضے دینے کے بجائے حکومت کے ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری کرنا ہے جو اونچی شرح سود کی وجہ سے زیادہ منافع بخش اور محفوظ ہے لیکن یہ ملک کی صنعتی اور معاشی ترقی کے مفاد میں نہیں۔ بینکوں کے بڑے ڈپازٹس پر 5سے 6فیصد فیس عائد کرنے سے اکائونٹ سے فنڈز نکالے جائیں گے جس میں سے کچھ فنڈز غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بینکوں سے نکالے گئے فنڈز کے مارکیٹ میں آنے سے رئیل اسٹیٹ، اسٹاک مارکیٹ اور دیگر شعبوں میں طلب بڑھنے سے قیمتوں میں اضافہ ہوگا جو افراط زر میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس موضوع پر کئی بینکوں کے صدور سے ملاقات میں یہ بات بتائی گئی کہ بینکوں نے کسٹمرز کے ایک ارب سے زائد ڈپازٹس پر 5 سے 6فیصد فیس لگانا فی الحال موخر کردیا ہے۔ بینک کوشش کررہے ہیں کہ ان کا ایڈوانس ڈپازٹس تناسب 31دسمبر تک 50فیصد ہوجائے۔
اسٹیٹ بینک بھی اس سلسلے میں بینکوں کو ADR پر 15فیصد ٹیکس لگانے کی شرط پر نرم پالیسی اختیار کئے ہوئےہے۔ مئی 1998ءمیں ایٹمی دھماکے کے بعد نواز شریف حکومت نے جب فارن کرنسی اکائونٹ منجمد کئے تھے،اس کے بعد بڑی مشکل سے لوگوں کا بینکنگ سیکٹر پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ میری گورنر اسٹیٹ بینک سے درخواست ہے کہ بینکوں سے ڈپازٹس نکالنے کی حوصلہ شکنی اور بینکوں کو نجی شعبے کو قرضے دینے کیلئے راغب کیا جائے۔