پاکستان بھر میں انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا مسئلہ اتوار کے روز خاص طور پر بڑی شدت اختیار کرگیا ، واٹس ایپ ، انسٹا گرام، میسنجر اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں سے پیغام رسانی اور ڈاؤن لوڈنگ میں لوگوں کو سخت مشکل کا سامنا رہا جبکہ وزیر برائے آئی ٹی کے اس دعوے کے باوجود کہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم سو فی صد کام کررہے ہیں، پیر کے روز بھی اس بارے میں شکایات کا سلسلہ جاری رہا۔ عام تاثر یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی رفتار کم کرنے کا مقصد اسلام آباد میں ڈی چوک پر پیش آنیوالے واقعات کے تناظر میں جاری حکومت مخالف پروپیگنڈے کی روک تھام ہے۔ تاہم اگر حقائق حکومتی مؤقف کے مطابق ہیں تو مقتدرہ کو کسی پریشانی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ جھوٹے پروپیگنڈے کا پردہ پورا سچ سامنے لاکر بآسانی چاک کیا جاسکتا ہے۔ انٹرنیٹ کی رفتار کو کم کردینا نہ صرف یہ کہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ طریقہ بے شمار مسائل کو جنم دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ ملک کے لاکھوں فری لانسرز کا کام رک جاتا ہے جن کے کلائنٹ دوسرے ملکوں میں ہیں اور جو قومی خزانے کو کروڑوں ڈالر فراہم کرتے ہیں، کاروباری اداروں کی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں اورمعیشت کو ایک ہی دن میں اربوں کا نقصان پہنچتا ہے۔ انٹرنیٹ آج کی دنیا میں علمی، تحقیقی، تدریسی، معاشی سرگرمیوں سمیت تمام کاروبار زندگی کی جان ہے۔ ڈیجیٹل نظام کے سبب چند برس پہلے تک جن کاموں کی انجام دہی میں مہینے صرف ہوتے تھے وہ اب پلک جھپکتے ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے بین الاقوامی سطح پر انٹرنیٹ کی رفتار کو تیز سے تیز تر کرنے اور پانچویں کے بعد چھٹی جنریشن متعارف کرانے کی تیاری جاری ہے۔اس دوڑ میں پیچھے رہنے کا مطلب ترقی کے بجائے پسماندگی کا انتخاب ہے اور کوئی ہوشمند قوم اور حکومت ایسا نہیں کرسکتی ۔ لہٰذامنفی پروپیگنڈے کا مقابلہ انٹرنیٹ کو سست کرکے نہیں ، جھوٹ کو بے نقاب اور پالیسیوں کی اصلاح کرکے کیا جانا چاہئے ۔