پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت کے استحکام کا سفر ہمیشہ مشکلات اور چیلنجز سے بھرپور رہا ہے۔ آمریت، سازشوں اور اندرونی و بیرونی دباؤ کے باوجود، جمہوری قوتوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور عوامی حکومت کے قیام کیلئے بے شمار قربانیاں دیں۔ ان تمام چیلنجز کے باوجود، کچھ رہنما ایسے بھی تھے جنہوں نے نہ صرف جمہوری نظام کی بقا کو یقینی بنایا بلکہ اس کے استحکام کے لیے عملی اقدامات کیے۔ ان میں ایک نمایاں نام آصف علی زرداری کا ہے، جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت، مدبرانہ حکمت عملی، اور غیرمعمولی قربانیوں کے ذریعے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کیا۔
آصف علی زرداری نے ایسے وقت میں قیادت سنبھالی جب پاکستان شدید بحرانوں کا شکار تھا۔ 2007 ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ پورا ملک غم اور غصے کی کیفیت میں تھا۔ اس نازک وقت میں آصف علی زرداری نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگا کر ایک منتشر قوم کو دوبارہ متحد کیا۔ ان کے اس نعرے نے نہ صرف عوام کو تسلی دی بلکہ جمہوریت کی راہ میں آنے والی ممکنہ رکاوٹوں کو بھی کم کر دیا۔
2008 ءکے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی صدارت کے دوران ملک کئی مسائل کا شکار تھا، جن میں دہشت گردی، معاشی بحران، اور سیاسی عدم استحکام شامل تھے۔ ان چیلنجز کے باوجود آصف علی زرداری نے ثابت قدمی دکھائی اور جمہوری نظام کے استحکام کیلئے وہ اقدامات کیے جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اپنائی اور سیاسی مفاہمت کو فروغ دیا۔ اس وقت کے سیاسی ماحول میں یہ ایک غیرمعمولی کارنامہ تھا، کیونکہ ماضی میں سیاسی اختلافات کو اکثر ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کر دیا جاتا تھا۔
آصف علی زرداری کی قیادت میں آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی منظوری ایک تاریخی کارنامہ تھا۔ اس ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات کو محدود کرکے پارلیمانی نظام کو مضبوط کیا گیا اور کئی اہم اختیارات پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کو منتقل کیے گئے۔ یہ اقدام نہ صرف جمہوری اصولوں کے عین مطابق تھا بلکہ اس نے مستقبل میں کسی بھی غیر جمہوری قوت کو اختیارات کے ناجائز استعمال سے روکنے کیلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اس ترمیم کے تحت صوبوں کو مزید خودمختاری دی گئی، جس سے وفاقی اکائیوں میں توازن قائم ہوا اور ایک مضبوط وفاق کی تشکیل ممکن ہوئی۔ آصف علی زرداری کا یہ اقدام ان کی دوراندیشی اور جمہوریت پسندی کا واضح ثبوت ہے۔
آصف علی زرداری نے اپنی سیاست میں ہمیشہ مفاہمت کو ترجیح دی۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کر قومی مسائل کے حل کیلئے کام کیا اور انہیں جمہوریت کے مشترکہ مقصد کیلئے قائل کیا۔ مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں کیساتھ ان کے تعلقات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی مفاہمتی پالیسی کی بدولت پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کی، جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
جمہوریت کے استحکام میں میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کا کردار بھی اہم ہے، اور آصف علی زرداری نے ان دونوں شعبوں کو آزاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی حکومت نے میڈیا کو آزادانہ کام کرنے کا موقع فراہم کیا اور عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کیا، چاہے وہ حکومت کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے کو برداشت کرنا اور اداروں کی آزادی کو یقینی بنانا ایک حقیقی رہنما کا فرض ہے۔
دہشت گردی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا ہے اور آصف علی زرداری نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مضبوط موقف اختیار کیا۔ ان کی حکومت نے نہ صرف دہشت گرد گروہوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں بلکہ عالمی برادری کے ساتھ تعاون بھی کیا۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کو نقصان نہ پہنچے۔ ان کے اس اقدام نے نہ صرف ملک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب بنایا بلکہ جمہوریت کے استحکام کو بھی یقینی بنایا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی آصف علی زرداری نے پاکستان کی جمہوری شناخت کو مضبوط کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے۔ انہوں نے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا اور پاکستان کو ایک مضبوط اور خودمختار ریاست کے طور پر پیش کیا۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے نہ صرف خطے میں امن کے قیام کلئے کوششیں کیں بلکہ عالمی برادری میں اپنی حیثیت کو بھی اجاگر کیا۔
آصف علی زرداری کی شخصیت اور قیادت نے یہ ثابت کیا کہ جمہوریت کی بقا اور استحکام کیلئے سیاسی بصیرت، قربانی، اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان میں جمہوریت کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔ ان کی جدوجہد اور اقدامات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کی قیادت میں جمہوریت کا جو سفر شروع ہوا، وہ آج بھی جاری ہے اور اس کے اثرات مستقبل میں بھی نظر آتے رہیں گے۔