• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی خود مختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں!

دسمبر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش کا مہینہ ہے تو دوسری جانب ملک میں موجود مسیحی برادری کیلئے اس ماہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے، بانی پاکستان نے ملک میں موجود اقلیتوں کو برابر کا شہری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ لوگ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں اور کسی کے مذہب سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہو گا، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان عطیہ خداوندی، قائد اعظم محمد علی جناح کی محنت کا ثمر اور علامہ اقبال کے خواب کی حسین تعبیر ہے۔ یہ وہ واحد ملک ہے جس کی تشکیل کیلئے خواب پہلے دیکھا گیا اور اس کی تعبیر اور تعمیر و تشکیل کیلئے جدوجہد بعد میں کی گئی۔ قائد اعظم کی صلاحیتوں، محنت،بے لوث جذبے اور فہم وفراست کی بدولت ہم ایک آزاد مملکت میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔ زندہ قومیں اپنے اسلاف کی اقدار اور روایات کی پاسداری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ایام بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہیں۔ یوم ِقائد اعظم بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم قائد اعظم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر صحیح معنوں میں ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ آ ج کا پاکستان ہرگز ایسا نہیں جو قائد اعظم نے ہمیں دیا، اگر ہم اُن کے اصولوں پر عمل کرتے تو دنیا میں کئی ملکوں سے آگے ہوتے، وسائل اور قدرتی نعمتوں سے مالا مال ملک ہماری بد نیتی کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ حکمران اور سیاستدان نظام حکومت اور طرز حکومت کے تجربات میں مصروف ہیں۔ قائد اعظم نے ہمیشہ میرٹ کی بالادستی اور سفارش کی حوصلہ شکنی کی، اس کے برعکس ہم نے حکومت اور سیاست میں اقربا پروری اور وراثت کو فروغ دے رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم پہلی اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کشکول ہاتھ میں تھامے ہوئے ہیں، آ ئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے حکومت اور عوام دونوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، اسمگلنگ، جھوٹ، لالچ کے اصولوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کی بجائے اسے تناور درخت بنا دیا گیا، ہزاروں اور لاکھوں کی بجائے اربوں کی کرپشن کی خبریں گرم ہیں۔ ذاتی مفادات کے حصول کیلئے قومی مفادات کو قربان کیا جا رہا ہے۔ منافع بخش صنعتوں اور اداروں کو تباہ وبرباد کر کے کوڑیوں کا بنا دیا گیا، قائد اعظم نے ہر لمحے سرکاری تقاریب اور دفتری میٹنگ میں وقت کی پابندی، کفایت شعاری کے عملی نمونے پیش کئے، مگر ہم وقت کی ناقدری کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کا بھی بے دریغ استعمال کر رہے ہیں ۔ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر نگاہ ڈالی جائے تو پی ٹی آئی نے2013سے اس ملک میں ایک اودھم مچا رکھا ہے، سیاسی انتشار بڑھا رکھا ہے، اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا دھرنا بڑی بردباری اور تحمل مزاجی سے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ناکام بنایا، پی ٹی آئی کی یلغار کے نتیجے میں پولیس اور رینجرز کے چار اہل کار اپنی جانوں سے گئے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کے 12کارکن مارے گئے مگر وہ تا دم تحریر کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی، اس احتجاج سے قومی خزانے کو روزانہ 190ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ جلسے جلوس، پرامن مظاہرے سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں کا حصہ اور حق ہیں، قانون بھی اجازت دیتا ہے مگر ان کی آڑ میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور انسانی جانوں سے کھیلنے کی کسی ملک کے آئین میں اجازت نہیں، اسلام آباد میں جو کچھ ہوا، حکومت اور اپوزیشن نے بھی اس کی مذمت کی، پی ٹی آئی ہمیشہ اس وقت ملک میں افراتفری پیدا کرتی ہے جب کوئی غیر ملکی سر براہ مملکت پاکستان آرہا ہوتا ہے۔ جس وقت کراچی میں کامیاب بین الاقوامی دفاعی نمائش آئیڈیاز ہوئی تو اسلام آباد کو خون سے رنگنے کی کوشش کی گئی۔ عالمی سطح پر اب تک حکومت اور اداروں کو بدنام کرنے کا سلسلہ جاری ہے یہ سب کچھ وطن دشمنی سے زیادہ کچھ نہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں تیزی نظر آ رہی ہے، بے گناہ انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ انتشار اور افراتفری کی صورتحال میں عام آدمی جو پہلے ہی بے روزگاری اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، اس کی پریشانیوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کو اپنی سیاسی بقا کیلئے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت کو اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ ملکی سلامتی پر اس جماعت کی جانب سے کی گئی کئی ناکام لشکر کشی کے باوجود ملک کی تمام سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی پر پابندی کے خلاف ایک پیج پر ہیں، ان کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی قومی دھارے اور ملک کے مفاد میں سیاست کرے، اس وقت پی ٹی آئی صرف کے پی کے تک محدود ہوتی جا رہی ہے، اس کی ملک گیر مقبولیت میں کمی ہو رہی ہے۔ ملک اس وقت جن حالات سے دوچار ہے ان میں مزید کسی قسم کے انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پی ٹی آئی کو سوچنا چاہئے کہ وہ ملک میں مکمل طور پر تنہائی کی جانب بڑھ ر ہی ہے، سیاست میں تنہائی کسی بھی جماعت کی بڑی ناکامی ہوتی ہے، پی ٹی آئی کو سنجیدگی کے ساتھ اپنی سیاسی پالیسی میں تبدیلی لانا ہو گی اور منتخب ایوانوں میں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کر کے ملک کو مضبوطی کے راستے پر لے جانا ہو گا، پی ٹی آئی کے محب وطن اور تجربے کار سیاسی رہنمائوں کو قیادت سنبھالنا ہو گی تاکہ یہ جماعت مکمل تباہی سے بچ سکے۔ عمران خان کا نئے پاکستان کا نعرہ دم توڑ چکا ہے، اب انہیں اور انکے ساتھیوں کو قائد اعظم کے پاکستان کو ہی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر آگے آنا ہو گا۔ اقتدار آنے جانےوالی شے ہے مگر ریاست کی خود مختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ قائد اعظم کے پاکستان میں ہم نے اپنے فائدے مرضی اور ضرورت کے مطابق رنگ بھر لیے ہیں حالانکہ ہم میں سے ہر فرد اس ملک اور ملت کی تقدیر بدل سکتا ہے اور قائد کے پیغام کو عام کر سکتا ہے۔

تازہ ترین