• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محی بخش قادری

اردو شعر و ادب کی آبیاری میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ ان ہی میں ادا جعفری بھی قابل ذکر ہیں۔ ان کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے۔

ان کی شاعری کا دورانیہ کم وبیش 75 برس پر محیط ہے، جس میں انھوں نے گاہے بہ گاہے یا بطرز تفریح طبع نہیں بلکہ تو اتر و کمال احتیاط کے ساتھ شاعری کی ہے اور جو کچھ کہا وہ شعور حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہا۔ حرف وصوت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ کہا۔ فکر وجذبے کے اس ارتعاش کے ساتھ کہا، کہ ان کا شعر ان کی شخصیت کی شناخت بن گیا۔

ادا جعفری کی پیدائش 22اگست میں 1924اتر پردیش کے اس بدایوں ضلع میں ہوئی جو اپنی علمی، تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ خاندانی نام عزیز جہاں تھا۔ تین سال کی تھیں کہ والد مولوی بدر احسن کا انتقال ہوگیا۔ پرورش ننھیال میں ہوئی۔ والدہ نے پڑھنے لکھنے کی طرف راغب کیا۔ 

ادا جعفری کی 1940ء کی ایکتصویر
ادا جعفری کی 1940ء کی ایک
تصویر

گھر میں ہی ایک کتب خانہ تھا، جس میں ڈھیروں اردو، فارسی اور انگریزی کتا بیں تھیں، جہاں سب کو جانے کی اجازت نہ تھی لیکن چپکے چپکے ادا جعفری نے اس کتب خانے سے استفادہ کرنا شروع کرد یا اور محض نو برس کی عمر میں انہوں نے پہلا شعر کہا تھا۔ تیرہ برس کی عمر میں باقاعدہ شاعری شروع کر دی تھی۔ 

وہ ’ادا بدایونی‘ کے نام سے شعر کہتی تھیں جو اختر ’رومان‘ شاہکا ر اور ’ادب لطیف‘ میں شائع ہوتا تھا۔ ان کی شادی 1947 میں نور الحسن جعفری (لکھنو) سے انجام پائی ۔ شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھے لگیں۔ تقسیم ہند کے بعد ادا اپنے شوہر کے ساتھ کراچی منتقل ہو گئیں۔ 

ان کے شعری مجموعے شہر درد کو 1968 میں آدم جی ادبی انعام ملا۔ شاعری کے بہت سے مجموعہ جات کے علاوہ جو رہی سو بے خبری رہی کے نام سے اپنی خودنوشت سوانح عمری بھی 1995 میں لکھی۔ 1991 میں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ 

ان کی تصانیف میں، میں ساز ڈھونڈتی رہی 1950 ( شاعری) شہر درد 1967(شاعری) ، غزالاں تم تو واقف ہو 1947( شاعری)، سازسخن بہانہ ہے 1982 (ہائگو ) حرف شناسائی (شاعری)، موسم موسم ( کلیات 2002)، جورہی سو بے خبری رہی 1995 (خودنوشت) ، غزل نما ( تنقید و ترتیب ) شامل ہیں۔

پہلا مجموعہ ’میں ساز ڈھونڈھتی رہی‘ 1947میں مرتب ہو چکا تھا لیکن تقسیم ہند کی وجہ سے بعد میں شائع ہوا۔ یہ ادا کی اپنی پہچان کا پہلا لمحہ تھا اور کچھ نقادوں کی نظر میں اردو ادب میں اپنی نوعیت کی پہلی جرات اظہار تھا۔ نظم ’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘ کا آخری بند ملاحظہ کریں:

میں ساز ڈھونڈتی رہی

کہ سن رہے ہیں چشم و دل نظام نو کی آہٹیں

بہار بیت ہی چکی ، خزاں بھی بیت جائے گی

مگر میں ایک سوچ میں پڑی ہوئی ہوں آج بھی

وہ میری آرزو کی ناؤ کھے سکے گا یا نہیں

نظام نو بھی مجھ کو ساز دے سکے گا یا نہیں ؟؟

اس شعری اسلوب کو ادا جعفری کے ناقدین نے جدید شاعری کی سمت ادا جعفری کا پہلا قدم تسلیم کیا۔ جس دور میں ’میں ساز ڈھونڈھتی رہی‘ منظر عام پر آیا وہ دور ادب میں ترقی پسند تحریک کے عروج اور ’حلقہ ارباب ذوق‘ جو آگے چل کر جدیدیت میں تبدیل ہو گیا کے متضادر جحانات کا دور تھا۔ ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’شہر درد‘ کی مشہور زمانہ غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں:

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے

آئے تو سہی، بر سر الزام ہی آئے

لمحات مسرت ہیں تصور سے گریزاں

یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے

کیا راہ بدلنے کا گلہ ہمسفروں سے

جس رہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا

کام آئے تو پھر جذبہ نا کام ہی آئے

1967 میں دو یادگار نظم ’مسجد اقصی‘ شائع ہوئی جس نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اردو ادب میں مسجدوں کے حوالے سے دو شعری شہ کار وجود میں آئے ہیں۔ ایسی پر اثر اور سراپا آرزو نظمیں ہمارے ادب میں خال خال ہیں جن میں فریاد، آرزو، تقاضا سبھی کچھ موجود ہو ۔ ادا جعفری کے یہاں جس نسائی حسیت کی جھلک ابتدا سے ملتی ہے وہ اس نظم میں اپنے عروج پر ہے۔ اس نظم میں مسلمانوں سے مخاطب کا انداز کچھ اس طرح ہے:

تم تو خورشید بکف تھے سر باز اروفا

کیوں حریف نگہ چشم تماشا نہ ہوئے

کس کی جانب نگراں تھے کہ لگی ہے ٹھو کر

تم تو خود اپنے مقدر کی عناں تھامے تھے

اس صحیفے میں ندامت کہیں مفہوم نہ تھی

اس خریطے میں ہزیمت کہیں مرقوم یہ تھی

محترم ہے مجھے اس خاک کا ذرہ ذرہ

ہے یہاں سرور کونین کے سجدے کا نشاں

اور پھر نظم کے آخری حصے میں کہتی ہیں:

تم نے کچھ قبلہ اول کے نگہباں سنا؟

حرمت سجدہ گہ شاہ کا فرمان سنا؟

زندگی مرگ عزیز اں کو تو سہ جاتی ہے

مرگ ناموس مگر ہے وہ دہکتی بھٹی

جس میں جل جائے تو خاکستر دل بھی نہ ملے

’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘ سے ’حرف شناسائی‘ اور ’سفر باقی ہے‘ تک تمام شعری پیرایوں میں ان کا لہجہ،غم ذات اور غم کائنات سے مانوس و آشنا اور زندگی کے جمالیاتی رگوں سے مسرتیں کشید کرنے کے باوجود پر سوز نظر آتا ہے۔ غزل نما اردو غزل کے قدیم اساتذہ کے مختصر حالات زندگی اور انتخاب کلام پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہے۔ 

جولائی 1995 میں شائع ہونے والی ادا جعفری کی خود نوشت، جورہی سو بے خبری رہی، ایسی تحریر ہے جو اردو زبان میں معیاری نثر کی تازہ تر لطافتوں اور دلکشی کے ساتھ سپرد قلم کی گئی اور ایک خاص زمانے کی تہذیب، طرز فکر اور طرز معاشرت کی عکاس ہے۔

تقسیم ہند سے قبل کے مسلمان معاشرے کی دیرینہ روایات کے ساتھ پروان چڑھنے والی اور جعفری سفر در سفر مختلف معاشروں کے تنوع اور رنگارنگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے زندگی کی حرارت میں کشید کرتی رہیں۔

ادا جعفری نے اردو اصناف کے علاوہ جاپانی صنف سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان ہائیکو کا مجموعہ ’سازسخن‘ کے نام سے شائع ہوا۔

ادا جعفری نے بحیثیت ایک نسوانی وجود، جن دو متضاد زمانوں کو دیکھا، برتا اور جھیلا ہے، انہوں نے اہم تجربات کو بہت سی تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ اپنی شاعری میں پیش کیا۔ ادا جعفری کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے ترقی پسند موضوعات اور نظم کے پیرائے کو اپنا کر شاعری کے جدید تجربات کی طرف خواتین کو متوجہ کیا۔

ادا جعفری کی شاعری مجموعی طور پر اقدار حیات اور انسان دوستی کی شاعری ہے اور ان کے پہلے شعری مجموعے سے لے کر ’ساز سخن بہانہ ہے‘ تک ان کے اس مسلک شاعری میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ زندگی کی صداقتوں کو شعری پیکروں میں ڈھالنے کا ہنر جانتی تھیں اور اس ضمن میں انتہا پسندی کا شکار کبھی نہیں ہو ئیں۔ 

ان کی شاعری میں زندگی کے کئی روپ اور ازویے ہیں، جس میں بنیادی حیثیت انسان کو حاصل ہے ۔ 12 مارچ 2015 کو مختصر علالت کے بعد 90 برس کی عمر میں ادا جعفری کا کراچی پاکستان میں انتقال ہوگیا۔

ابھی تو خواب چہرے سب دعا کی رہ گزر میں تھے

کہانی ختم کیسے ہو گئی آغاز سے پہلے