’’آپ نے اپنے کالم ”انقلاب تو دم توڑ گیا“ میں کہیں یہ مشورہ نہیں دیا کہ عوام نے جس جماعت کو ووٹ دیا کیا وہ حق دار کو واپس کیا گیا؟ اگر طاقت ور اور موجودہ حکمران عوام کو اس کا ووٹ واپس کردیتے تو انہیں اسلام آباد آنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا عوام کو بزور طاقت بھگانے یا زور زبردستی کی ایسی کوششیں ہمیں زیب دیتی ہیں؟ کیا ہم ایسی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرتوں کو سنبھال پائیں گے؟ کیا اس کے منفی نتائج ریاست کے مفاد میں ہیں؟
اگر سیاسی مسائل کاحل صرف زور زبردستی ہے اور سیاسی میدان اسی طریقے سے فتح ہوجاتے تو اب تک تمام سیاسی پارٹیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہوتیں۔ ‘‘یہ ایک قاری کی رائے ہے جس سے اختلاف کرنا کسی بھی جمہوری فرد کیلئے ممکن نہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس ملک میں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کا قانون ہمیشہ سے لاگو رہاہے اور یہ لاٹھی پکڑانے والے ہمارے سیاست دان بشمول بانی پی ٹی آئی ہی تو ہیں جنہوں نے ہمیشہ سے طاقت وروں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشوں کے نتیجے میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کا تیا پانچہ کیا او ر ذاتی و بین الاقوامی مفادات ، سازشوں کے عوض ملنے والے اقتدار کے مزے لوٹے۔
1988 ءسے لیکرآج تک ملک میں اقتدار کے حصول کیلئے جو محلاتی سازشیں ہوتی رہی ہیں اور سیاست دان اپنے سیاسی مخالفین کو نشان عبرت بنانے کیلئے جس طرح مقتدر حلقوں کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے ہیں وہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ 1988 ءسے 1999 ءتک ملک میں جو کچھ ہوتا رہا وہ آج بھی قوم کی آنکھوں میں محفوظ رہنا چاہئے۔ اس کے بعد کے حالات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ 2013ءکے انتخابات سے قبل احتساب، انصاف کے نام پر دھرنا سیاست کا جو ڈرامہ رچایا گیا اور ان انتخابات کے بعد عمران، باجوہ ہائبرڈ نظام لایا گیا اور جو بھی اس نظام سے فیض یاب ہوتارہا اور ملک کو جس طرح دنیا بھر میں تماشا بنا کر رکھ دیا گیا یہ بھی ماضی قریب کی ایک سیاہ تاریخ ہے مگر کسی دیوانے کو یاد نہیں،ہمیں تو یاد ہے ذرا ذرا۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنے دور اقتدار میں ملکی معیشت کو تباہی کے اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ جہاں سے واپسی کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی تھی اور اب سیاسی درجہ حرارت کس نہج پر ہے۔
یہ سب پر عیاں ہے۔ ایسے حالات میں جب ملک دشمن طاقتوں کی جانب سے دہشت گردی کی نہایت سنگین وارداتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں جن میں پارا چنار جیسے حساس علاقے میں فرقہ واریت کی نئی لہر بھی شامل ہو چکی ہے ، ان حالات میں بانی پی ٹی آئی کی کال پر اسلام آباد پر چڑھائی سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اعصاب کی یہ جنگ بُری طرح ہار چکے ہیں اور ان کے پاس احتجاجی و انتشاری سیاست کے سوا کوئی ایجنڈا موجود نہیں کہ جسے بروئے کار لاکرخود اور پارٹی رہنماؤں کو مشکلات اور سنگین مقدمات سے نجات دلا سکتے۔ جی ایچ کیو حملہ کیس میں بانی پی آئی سمیت 100سے زائد ملزموں پر فرد جرم عائد ہونا اپوزیشن لیڈر عمر ایوب سمیت اہم رہنماؤں کی گرفتاریاںان کی سیاسی حکمت عملی کی ناکامی اور اس بات کی واضح نشانی ہے کہ آنے والے دن بانی پی ٹی آئی سمیت پوری پارٹی پر بھاری پڑنے والے ہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے مارچ 2022 ءمیں بانی پی ٹی آئی کا یہ کہناتھا کہ اگر ان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو ملک تباہ و برباد ہو جائے گا۔ کیا بانی اپنے اسی قول کو عملی جامہ پہنانے میں کوشاں ہیں۔ بانی پی ٹی آئی اپنے مفادات کے حصول اور جھوٹی انا کی تسکین کو ملکی مفادات پر مقدم سمجھتے ہیں۔ موجودہ حالات کو اگر وطن عزیز کو ترقی کی طرف لے جانے اور فساد پھیلانے والوں کے درمیان معرکہ آرائی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ سیاست میں اختلافا ت کے تصفیے کیلئے ہمیشہ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے جمہوری ملکوں میں سیاسی عناصر میں شدید اختلافات کے باوجود قومی سطح پر انتشار اور افراتفری کی کیفیت کبھی پیدا نہیں ہوتی تاہم تحریک انصاف کی قیادت اپنے دور اقتدار میں بھی سیاسی مفاہمت سے انکارکرتی رہی اور حکومت سے نکالے جانے کے بعد بھی کسی سیاسی ڈائیلاگ پر یقین نہیں رکھتی حالانکہ ملکی سلامتی ، معیشت کی بحالی، سیکورٹی ایسے معاملات ہیں جنہیںسیاست سے بالا تر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ معاملات بھی سیاسی اختلافات کی نذر ہوتے رہے تو اس کا نتیجہ سنگین مسائل کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے۔ اس وقت ہمیں ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت یہ سمجھنے سے مسلسل گریزاں ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ ہو یا معیشت کو سہارا دینا قومی اتفاق رائے سے ہی معاملات کو بہتر سمت میںگامزن کیا جاسکتا ہے۔ ضروری تو یہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ان حالات میں اجتماعی دانش کو ایک بار پھر موقع دیتے ہوئے ملک کو بے یقینی سے نکالنے اور استحکام پیدا کرنے کیلئے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے آگے بڑھیں ۔ سیاسی محاذ آرائی پر بڑھتی کشیدگی ، بے چینی، مایوسی اور بے یقینی کسی بڑ ے بریک تھرو کی منتظر ہے۔ ایسا نہ کرنے کا مطلب قومی خودکشی کے راستے پر پیش قدمی کے سوا کچھ نہیںاور ہم ووٹ کو عزت دو یا گمشدہ ووٹ کی تلاش میں بہت کچھ کھو دیں گے۔ بانی پی ٹی آئی کے پاس فائنل کال کے بعد فائنل کارڈ سیاسی قوتوں کے ساتھ فائنل ڈائیلاگ ہی بچا ہے، خدانخواستہ ایسانہ ہو کہ پھر بانی کے گھر کو آگ لگ جائے گھر کے چراغ سے۔