• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی میں تیس مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں وزیراعظم ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی بڑے پیمانے پر کامیابی کے بعد راقم نے ’’ناقابلِ تسخیر قوت: ایردوان‘‘ کے زیر عنوان کالم میں وزیراعظم ایردوان کیلئے ملک کا نیا صدر بننے کی راہ ہموار ہو جانے سے آگاہ کیا تھا اور اس کے بعد وزیراعظم ایردوان کی قیادت میں آق پارٹی کے اجلاس میں زیادہ ترپارٹی ارکان نے وزیراعظم ایردوان کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔ انہوں نے باضابطہ طورپر صدرکے عہدے کیلئے اپنی امیدواری کا اعلان کرنے سے قبل صدر عبداللہ گل( جن کا تعلق آق پارٹی ہی سے ہے)سے ملاقات کی ہے تاہم اپنے امیدوار ہونے یا نہ ہونے کا اعلان صدر عبداللہ گل سے دوسری اور تفصیلی ملاقات تک موخرکردیا ہے۔اس لحاظ سے وزیراعظم ایردوان اور صدرعبداللہ گل کے درمیان اگلی ملاقات بڑی اہمیت کی حامل ہے تاہم اس دوران صدر عبداللہ گل کے ایک بیان سے یہ واضح ہے کہ وہ موجودہ حالات میں سیاست کو جاری رکھنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ صدر گل کے اس بیان سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایردوان کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں وہ وزیراعظم کے طور پر حکومتی فرائض سنبھالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے یعنی وہ ترکی میں روس کی طرح وزیراعظم اور صدر کے آپس میں جگہ تبدیل کرنے کے کھیل جیسے نظام کا حصہ بننا نہیں چاہتے ہیں۔
اس سے قبل وزیراعظم ایردوان نے صدر گل سے اپنی ملاقات کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا تھاکہ وہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں آئین میں دیئے جانے والے وسیع تر اختیارات کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔(صدر عبداللہ گل نے پارلیمنٹ کی جانب سے منتخب ہونے کی وجہ سے ان اختیارات کو استعمال کرنے سےگریز کیا) ترکی کے موجودہ آئین کی رو سے صدر کو پارلیمنٹ توڑنے، پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کردہ بلوں کو ویٹو کرنے اور کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن ان اختیارات کو جنرل کنعان ایورن نے ترگت اوزال کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ہمیشہ استعمال کیا لیکن جنرل کنعان ایورن کے بعد سویلین صدر ترگت اوزال نے صرف ایک دو بار ہی ان اختیارات کو استعمال کیا جبکہ بعد میں آنے والے کسی بھی صدر نے ان اختیارات کو استعمال کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔ نئے قوانین کے تحت وزیراعظم ایردوان ترکی کی تاریخ میں پہلی بار عوام کے ووٹوں سے براہ راست صدر منتخب ہوں گے (تمام جائزے ایردوان کے صدر منتخب ہونے کی واضح نشاندہی کررہے ہیں)اس لئے وہ کنعان ایورن دور کے صدارتی اختیارات کو استعمال کرنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔ ترکی میں آئندہ اگست میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل تمام صدور کا انتخاب پارلیمنٹ ہی کرتی رہی اور اب پہلی بار عوام براہ راست طور پر صدر کا انتخاب اپنے ووٹوں سے کریں گے۔ اس سے قبل ترکی میں پارلیمنٹ کی جانب سے مصطفیٰ کمال اتاترک اور عصمت انونو کو چار چار بار، جلال بایار کو تین بار، جمال گرسل ، جودت ثنائی، فحری کورو ترک، (کنعان ایورن نے مارشل لا لگانے کے دو سال بعد ریفرنڈم سے صدارتی اختیارات حاصل کئے) ترگت اوزال، سیلمان دیمرل، احمد نجدت سیزر اور عبداللہ گل کو ایک ایک بار صدر منتخب کیا جاچکا ہے جبکہ 2007ء میں عبداللہ گل کے صدر منتخب ہونے کے بعد آئین میں ترمیم کرتے ہوئے 2014ء سے ملک میں نئے صدر کو عوام کی جانب سے براہ راست طور پر منتخب کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ان صدارتی انتخابات کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ وزیراعظم ایردوان جنہوں نے اپنی سیاست کا آغاز استنبول کے میئر کی حیثیت سے کیا تھا مسلسل بارہ سال تک وزیراعظم رہ کر ترکی کی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں اور اب وہ ترکی میں پروٹوکول کے لحاظ سے سب سے اعلیٰ عہدے پر پہنچ کر اپنی سیاست پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
ایردوان صدارتی انتخابات سے قبل آئین میں ترامیم کے ذریعے مستقبل کے صدر کے اختیارات میں اضافہ کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے آئندہ سال پندرہ جون کو ہونے والے عام انتخابات سے ایک سال قبل بارہ جون2014ءتک ملک میں انتخابی حلقوں اور انتخابی نظام میں تبدیلیوں کیلئے پارلیمنٹ میں بل پیش کرنا شروع کر دیئے ہیں جن میں انتخابی حلقوں کا بِل بھی شامل ہے۔ وزیراعظم ایردوان ترکی کے موجودہ متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام کو تبدیل کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کی طرز کے انتخابی حلقوں کے نظام کو متعارف کرانا چاہتے ہیں کیونکہ متناسب نمائندگی نظام کی وجہ سے بڑی جماعتوں کی نشستوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ ان کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب کے مطابق پارلیمنٹ کی نشستیں حاصل نہیں ہو پا رہی تھیں۔ مثال کے طور پرآق پارٹی نے گزشتہ عام انتخابات میں 49 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت327 نشستیں حاصل کی تھیں لیکن وہ اگر متناسب نمائندگی کے بجائے انتخابی حلقوں پر مشتمل نظام پر عمل درآمد کرتی تو انچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں اسے342 نشستیں حاصل ہوتیں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ آئندہ سال عام انتخابات میں آق پارٹی اگر باون فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو نئے انتخابی حلقوں کے نظام کے تحت وہ پارلیمنٹ کی 550 نشستوں میں سے 367 نشستیں حاصل کرتے ہوئے کلی اکثریت حاصل کر لے گی اور پھر آئینی ترامیم کرانے میں اسے بھی کسی پارٹی کا محتاج نہیں ہونا پڑے گا۔ علاوہ ازیں ترکی میں تمام جماعتوں کو پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کرنے کے لئے کل ووٹوں کا دس فیصد ووٹ حاصل کرنے کی جو حد مقرر کی ہے اس کو بھی ختم کردیا جائے گا اور یوں یورپی یونین کی جانب سے ترکی پر غیر جمہوری طریقہ کار استعمال کرنے کا جو الزام لگایا جاتا رہا ہے اس کو بھی دور کرنے میں مدد ملے گی۔ انتخابی حلقوں کے نظام میں ہونے والی تبدیلی سے سب سے زیادہ نقصان نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کو پہنچے گا، پرانے نظام کے تحت اسے ملنے والی 53 سیٹیں کم ہو کر 32 رہ جائیں گی جبکہ ری پبلکن پیپلز پارٹی کی نشستیں 135 سے بڑھ کر 138 اور BDPکی 36 سے بڑھ کر 38 ہو جائیں گی۔ اس طرح وزیراعظم ایردوان آئندہ عام انتخابات میں دائیں بازو کی جماعت MHP کے ووٹوں کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے پارلیمنٹ میں مزید نشستیں حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔(اگرچہ وہ ملک کے صدر بننا چاہتے ہیں لیکن اقتدار تو انہی کی جماعت کے پاس رہے گا)۔
آئندہ ماہ اگست میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں آق پارٹی کی جانب سے رجب طیب ایردوان ہی کو صدارتی امیدوار کھڑا کئے جانے کی توقع کی جا رہی ہے لیکن مخالف جماعتوں کی جانب سے ابھی تک کسی بھی صدارتی امیدوار کا نام پیش نہیں کیا گیا ہے۔ اگرچہ مختلف ناموں سے متعلق چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں لیکن صورتِ حال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ان صدارتی انتخابات میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کسی بھی امیدوار کا نام پیش نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ بائیں بازو کی پارٹی کےکسی بھی صدارتی امیدوار کو ستائیس فیصد سے زائد ووٹ ملنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ اس لئے بائیں بازو کی ری پبلیکن پیپلزپارٹی کے دائیں بازو کی جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے ساتھ صلاح مشورہ کرتے ہوئے ہی دائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والے امیدوار کا مشترکہ نام ہی پیش کئے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کی جانب سے ریٹائرڈچیف آف جنرل اسٹاف جنرل اِلکرباشبو، موجووہ ڈپٹی اسپیکر میرال آقشینر اور آئینی عدلیہ کے موجودہ (ترکی میں قوانین کے تحت سرکاری ملازم ریٹائر ہوئے بغیر انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے اور انتخابات کے بعد معینہ عرصے کے اندر اپنی سیٹ سے دستبردار ہو کر اپنی ملازمت کو جاری رکھ سکتا ہے) چیف جسٹس ہاشم کلیچ کو صدارتی امیدوار کھڑا کئے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ صدارتی انتخابات کا پہلا رائونڈ دس اگست 2014ء کو ہو گا اور اگر ان صدارتی انتخابات کے پہلے رائونڈ میں کوئی بھی صدارتی امیدوار اکیاون فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو پھر 24 اگست کو صدارتی انتخابات کے دوسرے رائونڈ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا اور اس دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دے دیا جائے گا۔
تازہ ترین