گزشتہ کالم میں سیونتھ میری ٹائم سیکورٹی ورکشاپ میں شمولیت کا ذکر کیا تھا۔ ڈائریکٹر میڈیا نیوی علی عرفان میڈیا کے معاملات کو دیکھ رہے تھے جبکہ نیوی وار کالج کے کمانڈنٹ ریئر ایڈمرل اظہر محمود نے اس ورکشاپ کو اس طرح سے ترتیب دیا تھا کہ ہمارا اگلا پڑاؤ سرکریک تھا۔ سرکریک ایک ایسا معروف علاقہ ہے جو نو آبادیاتی دور کے خاتمہ سے اب تک پاکستان اور انڈیا کے مابین وجہ نزاع بنا ہوا ہے ۔ 1965میں انڈیا نے یہاں بھی شرارت کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد سے لے کر آج تک یہ 96کلومیٹر کی پٹی ایک سلگتا مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ یہ صوبۂ سندھ اور انڈین صوبہ گجرات سے منسلک ہے۔ اس پر مذاکرات بھی ہوئے مگر جب نیت درست نہ ہو تو مذاکرات صرف وقت گزاری یا پولیٹکل پوائنٹ اسکورنگ کیلئے ہی کئے جاتے ہیں،پاکستان کو بد قسمتی سے انڈیا کی جانب سے اسی رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم سب سے پہلے پی این ایس مہران کراچی پہنچے جو پاکستان نیوی کا پہلا فضائی اڈہ بھی ہے۔
اِدھر سے ہمارا سفر ہیلی کاپٹر کے ذریعے شروع ہوا۔ سرکریک کے علاقے شاہ بندر گئے اور پھر وہاں سے کشتیوں پر بیٹھ کر سرکریک پہنچ گئے ۔ یہ بنیادی طور پر بدين کا علاقہ ہے اور کبھی تو پرندوں کی چہل پہل کے حوالے سے بہت معروف تھا مگر اب ایسا نہیں رہا ہے۔ وہاں دونوں ممالک کی افواج موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ دونوں ممالک اپنے معاملات کشمیر جیسے بڑے مسئلے پر کیا طے کرتے جو اس چھوٹے مسئلے کو سلجھا نہیں سکے۔ انڈیا کی جانب سے وہاں پر اپنی فوج کیلئے کنکریٹ کی عمارات کھڑی کر دی گئی ہیں جبکہ پاکستان کی جانب سے وہاں مقیم فوجیوں کیلئے وسائل کی کمی صاف محسوس ہو رہی تھی کہ ہمارے فوجی خیموں میں تھے۔ اس مسئلہ کی جانب خصوصی طور پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم ان نامساعد حالات کے باوجود ہمارے سپاہیوں کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ میں نے خيموں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں تو زندگی بہت مشکل ہے تو ایک جوان بولا کہ سر گھر کی حفاظت کرنے کیلئے آسانیوں کی ضرورت نہیں صرف ہم وطنوں کی محبت اور اعتماد ہمیں ہر قسم کے حالات سے نبٹنے کا حوصلہ فراہم کرتے ہیں۔ ان کا حوصلہ قابل تحسین مگر پھر بھی وہاں پاکستان کی جانب سے فوج کیلئے سہولیات کی کمی کو رفع کرنا چاہئے۔ میری ٹائم سیکورٹی یعنی سمندری امور کی سلامتی کا وطن عزیز میں ذکر ہو اور گوادر سامنے نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔ کراچی کے کمانڈر وائس ایڈمرل فیصل عباسی نے اس حوالے سے بہت اچھا بندوبست کیا ہوا تھا اور ہم اگلے روز گوادر پہنچ گئے۔ کمانڈر کوسٹ گوادر ریئر ایڈمرل فیصل امین ہمارے میزبان تھے۔ عمومی طور پر یہ تصور ہے کہ گوادر کے حالات بہت خراب ہیں اور وہاں ریاست کی عمل داری پر سوالیہ نشان موجود ہے حالانکہ گوادر وہ شہر بن چکا ہے کہ جہاں پر جرائم کی شرح صفر ہے اور جنت بازار گوادر میں تو زیادہ تر کاروبار بھی غیر بلوچ کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہاں پر مقامی آبادی کی جانب سے کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں، یہ لوگ ہم کو اپنا مہمان سمجھتے ہیں اور مہمان کی عزت کرنا ان کے خون میں شامل ہے مگر، مگر کہنے پر میں نے استفسار کیا مگر کیا؟ مگر ہمیں دہشت گردوں سے اب ہر وقت خوف لاحق رہتا ہے اور یہاں موجود چینی شہری بھی ہر وقت اسی خوف کا شکار رہتے ہیں اور اس وقت مزید دکھ ہوتا ہے کہ جب یہاں کے اصل مسائل کو سمجھے بنا ان دہشت گردوں کے سیاسی چہروں کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور یہ کہنے والے نے میرے سامنے ایک معروف اخبار نویس کا مضمون کر دیا۔ گوادر اور اس سے منسلک مقامات پر اس وقت ترقیاتی کام نظر آ رہے ہیں۔ اوڑمارہ میں کیڈٹ کالج اور ہسپتال تعمیر ہو چکا ہے۔ گوادر میں سڑکوں کا جال بچھ چکا ہے مگر اس سب ترقیاتی سرگرميوں کے باوجود وہاں پر اس وقت تک اقتصادی سرگرمیاں اپنے عروج پر نہیں پہنچ سکتیں جب تک امن و امان کے حوالے سے تمام خدشات رفع نہیں ہو جاتے ہیں اور گوادر کو ریلوے سے منسلک نہیں کر دیا جاتا۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی یہ تحریر کرتا رہا کہ ریل پروجیکٹ پر کام کئے بنا کچھ حاصل نہیں ہوگا اور میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اس پر جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ گوادر میں کام کر نے والی چینی کمپنی کے سی ای او مسٹر ژاؤ بھی مجھ سے ملاقات کیلئے تشریف لائے۔ وہ بہت پر عزم تھے کہ اپنے کام، ہدف کو ہر صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے اور اس پروجیکٹ کے راستے میں حائل ہر رکاوٹ کو دور کرنا ہے۔ میری ٹائم سیکورٹی کے حوالے سےکمانڈر پاکستان فلیٹ ریئر ایڈمرل منیب، کموڈور احسن ڈپٹی کمانڈنٹ پی این ڈبلیو سی جبکہ کمانڈر اشد یٰسین ڈائریکٹر مارسیو، کموڈور احمد حسین ڈی جی پی آر نے بہت تزویراتی امور پر گفتگو کی اور اس کو واضح کیا کہ انڈیا کی بحریہ کی برتری کا حقیقی تزویراتی صورت حال سے کوئی تعلق نہیں۔ کراچی واپسی پر میری کراچی میں متعين چینی قونصل جنرل مسٹر یانگ ينگڈونگ سے ملاقات طے تھی اور ان سے بھی گفتگو کا محور پاکستان اور چین کے اقتصادی تعلقات رہے۔ لاہور واپسی کے بعد اس ورکشاپ کا آخری مرحلہ نیوی وار کالج میں وزیر اعظم شہباز شریف کی آمد اور ان کا خطاب تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے تزویراتی امور کے ساتھ ساتھ بلیو اکانومی کی اہمیت پربات کی۔ ان کا حکومت میں آنے کا ایک ہی ہدف ہے کہ پاکستان کی معیشت کو بحال کیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ میری جب ان سے آخری ملاقات ہوئی تھی تو اس وقت بھی قومی معیشت کو بحال کرنے کی غرض سے بلیو اکانومی پر انہوں نے گفتگو کی تھی جو کہ وقت کی ضرورت ہے۔