(گزشتہ سے پیوستہ)
قیام پاکستان کے پہلے عشرے کی ابتدا میں ہی آئین سازی کا آغاز تو ہوگیا تھا۔ ’’قرارداد مقاصد‘‘ متفقہ بنیادی ڈھانچے کے طور پر اس کی پہلی کامیابی تھی۔ واضح رہے آج کے نافذ العمل دستور میں مملکت کی اسلامی جمہوری عملی شکل دونوں کی نمائندہ دستاویز کے طور پریہ قرارداد آئین کا مقدم حصہ ہے۔ اس ریاست کی ہی سیاسی فلاسفی سے اختلاف کے نتیجے میں جو دوسرا بڑا سیاسی نقطہ نظر مملکت کی جمہوری حیثیت میں سامنے آیا وہ ترقی پسند تحریک تھی، اس پلیٹ فارم نے اسلامی جمہوریہ میں کمیونزم کے فروغ کی گنجائش پیدا کرنے کی علمی صحافتی کوشش کی تو حکومت نے اسے نظریہ پاکستان سے متصادم قرار دے کر ترویج کمیونزم پر پابندی عائد کر دی۔ اس کے باوجود پاکستان کے موجود کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم کا ایک سیکشن (صحافی دھڑا) ترقی پسند تحریک کا معاون بن گیا۔ قطع نظر کمیونزم کی ممنوع حیثیت کے قرار داد مقاصد پر تنقیدی نقطہ نظر کو پنپنے کی جگہ ملی، ترقی پسند تحریک جس نے 1970ء سے قبل ہی بائیں بازو (لیفٹ) کی عملی صورت اختیار کی اسی کی معاون ظہور پذیر صحافت نے جہاں نظریہ پاکستان کی اساس ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ اور دو قومی نظریے کے مقابل کمیونزم، لبرٹی ازم، سیکولرازم اور اسلامک سوشلزم کے نظریات کے فروغ کا آغا ز کیا۔ یوں پاکستانی صحافت دو واضح دھڑوں رائٹ اورلیفٹ میں تقسیم ہو کر ملک میں جمہوری ماحول کے فروغ اور تاثر کا سبب بنی۔ ترقی پسند تحریک کی صحافت کوئی خالی خولی نہیں تھی ،دو قومی نظریہ پاکستان کے پرزور حامی بھی اس سے جزواً متاثر تھے کہ بلاشبہ اس کا رنگ ڈھنگ تو مکمل عوامی تھا اور حکومت عوامی مفادات سے متصادم غالب حد تک سیاست و گورننس میں بیک وقت قرار داد کی علمبردار لیکن قیام پاکستان کے بعد کی سیاسی قباحتوں کی ذمے دار بھی بنتی گئی۔ عوام الناس اور سیاسی کارکنوں میں ایک بڑا طبقہ نیشنلسٹ کے طور پر پیدا ہوگیا، جو ریاستی، سیاسی فلاسفی، دو قومی نظریے اور اسلامی جمہوری کا بیک وقت پرزور حامی اور علمبردار تھا لیکن گورننس میں جاگیر داری، خود غرضی، عوام مخالف رجحانات ، آمریت، افسر شاہی، فوج کی سیاسی و انتظامی اختیارات میں مداخلت اور نظر رکھنے کا مخالف تھا۔ اس طرح ملک میں نظریہ پاکستان کا پرزور حامی ایک بڑا طبقہ بھی پیدا ہونے لگا جو تحریک پاکستان کے قومی عزم کے مطابق اسلامی جمہوریہ کا پرزور حامی ہونے کے ساتھ ترقی پسند صحافت سے بھی جدیدیت کی حمایت اور آمریت کی مخالفت میں، بااثر ترقی پسندی کی ابلاغی معاونت سےمتاثر ہوتا اس کے لئے نرم گوشہ رکھتا تھاکہ : ترقی پسند تحریک کا ایک خاصہ یہ تھا کہ مسلم لیگیوںاور ترقی پسندوں کا بھی ایک دھڑا ایوبی مارشل لا کی بیساکھی بن گیا،لیکن کلاسیکل لیفٹ کا مخالف اور اس حوالے سے بھی دفاعی بجٹ اور تیاریوں کے بارے میں اپنے ابلاغی ایجنڈا کے حوالے سے بہت سنجیدہ تحفظات کا حامل رہا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ نئی مملکت میں سیاسی نظریات کی یہ جمہوری تقسیم اپنی اپنی صحافتی معاونین کی مرہون منت تھی۔ یہ اس ساری پولیٹکل گیم اور آپریشنز کا مرکز و محور تھی۔ ان کے سیاسی پلیٹ فارمز کے مقابل ان کا کمیونیکیشن سسٹم (سی ایس ایس) منظم اور مکمل پیشہ ورانہ طرز کی صحافت کا حامل ہونے کے ناطے، اپنی اپنی سیاسی جماعتوں اور علمی پلیٹ فارمز کے مقابل زیادہ منظم و موثر اور نتیجہ خیز تھے۔ یوں پاکستان کے پہلے دوعشروں میں ہی ایک اعلیٰ جمہوری اقدار کا ایک بڑا قومی ابلاغی دھارا، تحریک پاکستان والے ابلاغی معاون سے ارتقائی مراحل طے کرتا، پاکستان کی خوبصورت اور متاثر کن نیشنل کمیونیکیشن فلو کی شکل اختیار کرگیا۔ باہمی سیاسی اختلافات اور اس میں مخصوص سیاسی صورتحال کے مطابق شدت آنے کے باوجود یہ سب مختلف و معاون ابلاغی دھڑے، نیشنل کمیونیکیشن فلو پاکستانی (مرکزی ابلاغی دھارے) کے بڑے جزو رہے، اس میں ایک بڑا حصہ حکومتی تحویل کے کنٹرولڈ الیکٹرانک میڈیا، ریڈیو ٹی وی کا بھی شامل تھا، جو نیم جمہوری حکومتوں اور آمرانہ ہر دو ادوار میں اگرچہ حکومت کا ہی مکمل ترجمان رہا، لیکن کتنی ہی پبلک سروسز، تعلیم عامہ اور گھروں میں ڈلیور ہونے والی تفریح عامہ کیلئے اس کی خدمات بیش بہا رہیں، جس نے سماجی رویوں کی مثبت سمت تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
آئی ایس پی آر کی خصوصی توجہ کیلئے یاد دلایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی مختلف الخیال سیاسی درجہ بندی میں وقتاً فوقتاً سیاسی اختلافات میں شدت آنے سے سیاسی ابلاغ میں جو آلودگی اور ابلاغی ہیجان پیدا ہوتا رہا اس کے باوجود بحیثیت مجموعی پاکستانی نیشنل کمیونیکیشن فلو جو اپنے ارتقا کے ساتھ عوام، حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور ملکی مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بڑے انٹرسٹ گروپس، جیسے زراعت و صنعت، بینکنگ، صحت عامہ، دفاع و سلامتی، تفریح عامہ پاپولیشن ویلفیئر وغیرہ کیلئےکمیونیکیشن سپورٹ سسٹم (سی ایس ایس) کی حیثیت رکھتا تھا۔ بحیثیت مجموعی مکمل ذمے داری اور پیشہ ورانہ فرائض سے بھی سب کا نتیجہ خیز معاون بنا رہا۔ جنگ ستمبر میں اس نیشنل کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم نے افواج پاکستان کے شانہ بشانہ جو ابلاغی معاونت فراہم کی اس نے پاکستان کو میدان کار زار کے متوازی، پاکستان کی مثالی نفسیاتی جنگ کو بے مثال عظیم ابلاغی جنگی فتح کا درجہ دیا کہ پانچ گنا دشمن، اس میدان میںذہناً شل ہو کر ڈھیر ہو گیا تھا۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ دوران جنگ یہ قومی ابلاغی دھارا جو مختلف الخیال سیاسی نظریات کے حوالے سے واضح منقسم چلا آ رہا تھا گھنٹوں میں یک شکلی میں ڈھل گیا تھا، جو مادر وطن کے دفاع و سلامتی میں اپنے کردار کے لئے وقف ہوگیا تھا۔ فوجی، جنگ اور دفاعی بجٹ کے بڑے بڑے ناقد لیفٹ کے صحافی دانشور، شاعر، ادیب نے ملکی سلامتی کو دشمن کےچیلنج میں افواج پاکستان کو جو خدمات فراہم کیں جو جنگی ترانے لکھے گئے وہ کامیاب ترین میوزک اور گائیکی سے ابلاغی ہتھیاروں میں ڈھل گئے۔ اس موثر ترین ابلاغی معاونت نے صرف جرأت و شجاعت کی ناقابل یقین معرکہ آرائی میں فوجیوں کی حوصلہ مندی کے گراف کو ہی بلند تر نہیں کیا تھا دشمن تک ان کی پہنچ تباہ کن بمباری سے کم نہ تھی، جس سے بھارت بطور قوم جارحیت کے پاکستانی جواب سے سکتے میں آ کر قومی مورال کی جنگ ابتدائی دنوں میں ہی ہار گیا تھا، کہ ہمارے ابلاغی ہتھیار اتنی سرعت سے تیار ہوئے کہ ابلاغی نفسیاتی جنگ کی جدید عالمی تاریخ کی یہ کامیاب ترین کیس سٹڈی بنی،الگ ہے اس پر تحقیقی و علمی کام سے اسے استحقاق کے مطابق سنبھالا نہ جا سکا۔ وگرنہ آج ہمارا جتنا پرخطر ابلاغی دھارا جگاڑ قانون سازی سے بن گیا اور بن رہا ہے ایسا ہر گز نہ ہوتا۔ جیسے جنگ ستمبر میں عوام و افواج یکجان ہوئے اس طرح سیاسی منقسم قومی ابلاغی دھارا بھی ایک ہی شکل و اثر کا حامل ہوگیا تھا۔(جاری ہے)