26نومبر کو اسلام آباد پر یلغار کے بعد سب کو امید تھی کہ اب عمران خان مزید ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ جو اس کی پارٹی اور خود اس کے لیے مزید ہزیمت اور جگ ہنسائی کا موقع فراہم کرے۔ لیکن عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک سیاستدان نہیں صرف فاسٹ بولر ہے جو پے در پے ناکامیوں کے بعد ٹھنڈے دماغ سے نہیں بلکہ غصّے میں بائونسر اور نو بال پھنکنا شروع کر دیتا ہے اس سے یا تو وہ کسی کھلاڑی کو زخمی کر دیتا ہے یا خود کھیل کے میدان سے باہر ہو جاتا ہے۔ جس زمانے میں ہمارے مقتدر حلقے پر وجیکٹ عمران خان پر کام کر رہے تھے تو انہوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ وہ ایسا بت تراش رہے ہیں، جو اگرچہ گزشتہ سولہ سال سے اپنے طور پر ایک دو سیٹوں سے زائد کامیابی حاصل نہیں کر سکا لیکن اس کے اندر غرور، تکّبر اور خود پسندی کا مادہ اس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کہ وہ نہ کسی سے ہاتھ ملانا پسند کرتاہے اورنہ ہی اپنے علاوہ کسی کو اہمیت دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکی اپوزیشن تو ایک طرف اس کے تمام دیرینہ ساتھی بھی ایک ایک کرکے اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک آمرِ مطلق ہے جو اپنے فیصلے دوسروں پر تھوپتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی پارٹی ایک ہجوم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جہاں ڈسپلن نام کو نہیں۔ موروثی سیاست کے نکتہ چیں کی پارٹی مکمل طور پر اسکی زوجہ اور ہمشیرہ کے ہاتھوں میں ہے اور اس کے ورکر ہر روز سڑکوں پر خجّل خوار ہو رہے۔ جہاں تک خان کے سیاسی نظریات کا تعلق ہے تو وہ مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہے۔ وہ ایسا نظام چاہتا ہے جس میں بیک وقت سعودی فرمانروا، چینی کیمونسٹ پارٹی اور روسی صدر کے لا محدود اختیارات اسے حاصل ہوں۔ جس کے ذریعے وہ اپنے مخالفین کو الٹا لٹکا دے۔ اپنے ہر سابقہ بیان پر یو ٹرن لے، ملک کے سب سے بڑے صوبے کا سربراہ عثمان بزدار جیسے کٹھ پتلی کو بنائے جو فرح گوگی ، اقبال گجر اور بشریٰ بی بی کے ذریعے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کرے۔ یادرہے انٹرنیشنل ٹرانسپرنسی کی رپورٹ کے مطابق دوسروں کو چور لٹیرا اور کرپٹ کہنے والے کے دور میں کرپشن 24درجے بڑھ گئی تھی۔ پاکستانی معیشت کے زوال کا آغاز جو اس کے پہلے سال منفی جی ڈی پی سے شروع ہوا۔ کئی سال کے بعد اب بہتری کی جانب رواں دواں ہے جب کہ پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر نے محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر پوری کوشش کی کہ پاکستان معاشی طور پر تباہ اور خانہ جنگی کا شکار ہو جائے۔ اس نے آئی ایم ایف سے لیکر ہر عالمی ادارے کو پاکستان کی مدد کرنے سے روکا، ہر روز دھرنوں اور توڑ پھوڑ کی کارروائیاں کیں۔ جس میں سب سے بڑی اور خوفناک روایت یہ ڈالی کہ ایک صوبے نے متعدد بار پورے لائو لشکر سمیت دارالحکومت پر چڑھائی کی اور عوام کو اذیت دینے کے ساتھ ساتھ قوم کے اربوں روپے کا نقصان کیا۔ بارہ کھلاڑیوں کا کپتان عام طور پر ڈکٹیٹر ہوتا ہے حالانکہ اُن میں کچھ سلجھے ہوئے کپتان دوسروں سے مشاورت بھی کرتے ہیں۔ لیکن کروڑوں لوگوں کا لیڈر اگر فاشسٹ رویّوں کا مالک ہو تو وہ کبھی اپنی پارٹی کو جمہوری اصولوں پر استوار نہیں کر سکتا۔ اور آج دوسروں سے نفرت اور تقسیم کے بیج جو وہ دوسروں کیلئے بوتا ہے تو کل اسے یہی فصل خود اپنے لوگوں کے ہاتھوں کاٹنی پڑے گی۔ اگر اس کے سیاسی کیرئیر پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں سب سے بڑا عنصر یو ٹرن کا ہے جس کے بارے وہ اور اس کے مریدین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یوٹرن لینا بڑا لیڈر ہونے کی نشانی ہے حالانکہ یو ٹرن کا مطلب جھوٹ بولنا، دغا بازی کرنا اور دھوکہ دینا ہوتا ہے۔ اس کی سیاسی بصیرت اور کارکردگی کا یہ عالم رہا ہے کہ آپ گیارہ بار ہ بجے ہیلی کاپٹر پر اپنے آفس تشریف لاتے تھے اور چار پانچ بجے رخصت ہو جاتے تھے۔ اس دوران ان کا زیادہ وقت اپنے سوشل میڈیا کے جنگجوئوں کے ساتھ گزرتا تھا۔ کیونکہ انہیں بیگم صاحبہ کے عملیات کے بموجب اس سے زیادہ دیر تک باہر رہنے کی اجازت نہیں تھی اب یہ باتیں طشت ازبام ہو چکی ہیں کہ گھریلو خاتون کس طرح امورِ سلطنت میں دخیل تھیں اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ خان صاحب کس طر ح ان کے عملیات اور چلّوں کے قائل تھے۔ لیکن یہ سب کچھ اگر قوم کے حق میں ہوتا تو گوارا کر لیا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ تقریباََ پونے چار سالہ دور میں خان صاحب کی جادوئی حکومت نے وہ کون سا کارنامہ سرانجام دیا تھا کہ ان کے مریدین اسے یاد کرکے دہائیاں دے رہے ہیں۔ دعوے تو خان صاحب نے دنیا بھر کے کئے تھے کیا اُن میں کوئی وعدہ پورا ہوا۔ پچاس لاکھ گھر وں اور ایک کروڑ نوکریوں میں کتنے گھر اور نوکریاں ملیں ، اسی طرح خان صاحب نے ڈکشنری میں موجود ہر انقلابی لفظ کو اس طرح استعمال کیا کہ وہ مذاق بن کر رہ گیا، سونامی، حقیقی آزادی، ریاستِ مدینہ وغیرہ وغیرہ۔ ریاستِ مدینہ کے حوالے سے بشریٰ بی بی نے ننگے پائوں جانے کی جو کہانی گھڑی ہے۔ اس سے ان کے سیاسی بصیرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ۔ حالات کا کچھ پتہ نہیں کل کیا ہو جائے۔ لیکن یاد رکھیں اگر خان صاحب اپنی موجودہ ذہنی کیفیت کے ساتھ برسرِاقتدار آجاتے ہیں تو پاکستان میں وہ حالات پیدا ہو جائیں گے جن کا تصّور بھی نہیں کیا جا سکتایہ حالات خود خان صاحب کیلئےخطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ خان صاحب ٹھنڈے دل سے سوچیں اور اپنی زندگی کا آخری اور مثبت یوٹرن لیں اور سول نافرمانی کی دھمکیاں دئیے بغیر تمام اسٹیک ہولڈر ز سے مذاکرات کا آغاز کریں۔ میرا آج کا شعر
وہاں پیدا کیا جو حادثوں کی سرزمیں ہے
ہمیں اے کاتبِ تقدیر، کیا تقدیر دی ہے