• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکرم بہت بڑا فن کار تھا۔ اُس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں جادو تھا۔ مناظر کو ایسے اپنے کینوس پر اُتارتا کہ اصل مناظر نقل بن کر ہاتھ باندھے کھڑے ہو جاتے۔ وہ تنہا اپنے کام میں گم رہتا تھا۔ اُسے فن سے اتنا پیار تھا کہ اپنی پوری زندگی اُس کے لیے وقف کردی۔ 

شادی بھی نہیں کی، تنِ تنہا تھا اور اُسے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا تھا۔ وہ کسی کو قریب نہیں آنے دیتا تھا۔ کسی کے سامنے کام نہیں کرتا تھا۔ کام کے دوران کوئی قریب آجاتا، تو ہاتھ روک لیتا۔ بہت سے لوگ اُس سے یہ فن سیکھنے کے متمنّی تھے، مگر وہ کسی کو پاس بھی نہ پھٹکنے دیتا۔ 

وہ انا پرست تھا اور اناپسند، خود غرض ایثار کے نُور سے محروم ہی ہوتے ہیں۔ سو، وہ بھی ایسا ہی تھا۔ ’’مَیں نہیں سِکھا سکتا، کسی کو یہ سب۔ میر افن صرف میرے لیے ہے، مَیں اِسے دوسروں کی جھولی میں نہیں ڈال سکتا۔‘‘ ’’بھائی! یہ سیکھنے سکھانے والی دردِ سری نہیں ہوتی مجھ سے…‘‘ کوئی بھولا بھٹکا اگر اُس کا فن سیکھنے کی خواہش لے کر آ ہی جاتا، تو یہ جواب سُن کر مایوس لوٹ جاتا۔ 

البتہ لوگوں کی مالی مدد میں وہ ہرگز تامل نہ کرتا تھا۔ ’’ہے تو سڑیل، مگر ضرورت مند کی مدد کردیتا ہے۔‘‘ کوئی آدھی ادھوری تعریف کرتا۔ ’’پیسےکو اہمیت نہیں دیتا، بس سکھاتا نہیں کسی کو کچھ بھی۔‘‘ ’’ہے تو سائیکو، بس کسی کا پھیلا ہوا ہاتھ نہیں جھٹکتا۔‘‘ اُس کے لیے ہرتعریف کے ساتھ، کچھ نہ کچھ تنقید ضرور جُڑی ہوتی تھی۔

……٭٭……٭٭……

عدنان غریب ماں باپ کا بیٹا تھا۔ غربت کے باوجود جیسے تیسے گائوں کے اسکول سے میٹرک پاس کر لیا تھا۔ پڑھائی میں زیادہ اچھا نہیں تھا، مگر وہ پیدائشی آرٹسٹ تھا۔ گاؤں کے اسکول میں ڈرائنگ یا آرٹ کو کوئی استاد نہیں تھا۔ بغیر کسی راہ نمائی کے وہ بڑی صفائی سے تصویریں بناتا۔ کوئی سامنے رکھی چیز دیکھ کر اُس کی ہو بہو تصویر بنا لیتا۔ اُسے بہت شوق تھا یہ فن باقاعدہ سیکھنے کا۔ 

ماں باپ کے پاس وسائل نہیں تھے۔ ماسٹر مدثر نے، جنھوں نے اُسے میٹرک میں ریاضی پڑھائی تھی، اُس کا شوق دیکھتے ہوئے اُس کے لیے کچھ کرنے کا سوچا۔’’ماجھو! اگر تمھارا بچّہ یہ کام سیکھ لے، تو بہت بڑا آرٹسٹ بن جائے گا۔ بہتر ہے، اُسے شہر بھیج دو۔‘‘ ماسٹر مدثر نے عدنان کے باپ سے بات کی۔ ’’ماسٹر صاحب! ہم غریبوں نے کبھی شہر کی شکل نہیں دیکھی۔ کوئی رشتے دار تو دُور کی بات، ہمارا تو کوئی جاننے والا بھی نہیں رہتا شہر میں۔ 

ہم اِسے کیسے شہر بھیج دیں۔‘‘ ماجھو نے حیرانی سے ماسٹر صاحب کو دیکھا۔ ’’میرا ایک دوست ہے شہر میں، بہت بڑا فن کار ہے۔ مَیں اُس سے بات کرتا ہوں، اگر وہ مان جائے، تو مَیں خود چھوڑ کر آئوں گا عدنان کو اُس کے پاس۔ اُس سے یہ فن سیکھ لے گا، تو بڑا آدمی بن جائے گا۔‘‘ ماسٹر صاحب نے اپنی آنکھوں میں بسا خواب، جیسے ماجھو کی پلکوں پہ سجانے کی کوشش کی ۔ ’’اگر آپ کو ایسا لگتا ہے، تو آپ کوشش کر لو ماسٹر صاحب۔‘‘ ماجھو نے بات ختم کی۔

……٭٭……٭٭……

چند روز بعد ماسٹر صاحب شہر پہنچے اور بس سے اُتر کر سیدھے مکرم کے پاس گئے۔ دوپہر کا وقت ہورہا تھا۔ ’’اوئے مدثر! تُو کدھر سے ٹپکا ہے، اتنےعرصے بعد شکل دکھائی۔‘‘ مکرم ماسٹر مدثر کے گلے لگ گیا۔ ’’بس یار! تجھ سے ملنے کا دل چاہا، تو آگیا۔‘‘ ماسٹر صاحب نے مُسکرا کر کہا۔ ’’تُو مجھے فون کردیتا، مَیں خُود لینے آتا تجھے۔‘‘ مکرم، اپنے بچپن کے یار کو دیکھ کر بہت خُوش تھا۔ ’’بس مَیں نے سوچا، تجھے سرپرائز دیتا ہوں۔‘‘ ’’اچھا چل فریش ہو کرآ، مَیں تیرے کھانے پینے کا بندوبست کرتا ہوں۔‘‘

’’اور سُنا، ابھی تک وہیں ہے، گاؤں کے ہائی اسکول میں؟‘‘ مکرم نے کھانے کے دوران سوال کیا۔ ’’ہاں یار!‘‘’’تُو نے تو اپنی زندگی وہیں گزار دی۔ چاہتا تو کسی بڑے شہر میں ٹرانسفر لے سکتا تھا۔ آخر کو اپنے دَور کا گولڈ میڈلسٹ ہے۔‘‘ ’’ہاں، مجھے تو آسانی سے ٹرانسفر مل جاتا، مگر میرے گاؤں کے بچّوں کے لیے بڑی مشکل ہوجاتی۔ 

وہاں کے بچّے اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ مَیں اپنا علم اُن تک پہنچاؤں۔‘‘ مدثر نے مُسکرا کر جواب دیا۔ ’’تُوبالکل نہیں بدلا بھئی…وہی خیالات ہیں تیرے ابھی تک۔‘‘ مکرم نے سر ہلاتے ہوئے ہنس کے کہا۔ ’’کسی احساسِ برتری کے بغیر خُود کو دوسروں کے لیے کارآمد بنانے کی کوشش بھی صدقہ ہے۔‘‘ مدثر نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔

……٭٭……٭٭……

’’ یار! تجھ سے ایک کام ہے، چھوٹا سا۔‘‘ اگلے روز واپس جانے سے پہلے مدثر نے مکرم کی طرف دیکھا۔ ’’چھوٹا سا کیوں یار! تُو کوئی بڑا کام بتا۔‘‘ مکرم خوش دلی سےبولا۔ بس چند لوگ ہی تھے، اُس کی زندگی میں ایسے، جن سے وہ ہنس کر، مُسکرا کر، بہت خوش دلی سے بات کرتا تھا اور اُن ہی میں سے ایک ماسٹر مدثر تھا، جو اس کا جگری دوست، پچپن کا یار تھا۔ دونوں نے میٹرک تک اکٹھے پڑھا تھا۔ اُس کے بعد بھی اُن کی دوستی قائم رہی اور اب تک قائم ہی تھی۔ ’’یار! میرے گاؤں میں ایک بچّہ ہے عدنان، پڑھائی میں بس واجبی سا ہے۔ میٹرک کر لیا ہے اُس نے۔ 

آگے اُس کے ماں باپ کے پاس وسائل نہیں ہیں، مزید تعلیم دلوانے کے، مگر ڈرائنگ بڑی اچھی ہے اُس کی، اگر وہ اسی سمت محنت اور مشق کرے، تو مجھے یقین ہے، وہ بہت بڑا آرٹسٹ بن جائے گا۔ تو اگر تم اُسے اپنی نگرانی میں لے کر یہ فن سکھائو تو…‘‘ ماسٹر مدثر کی آدھی بات ابھی منہ میں ہی تھی کہ مکرم نے اُسے ٹوک دیا۔ ’’مدثر! تُو اچھی طرح جانتا ہے ناں، مَیں اپنا فن کسی کو نہیں سِکھاتا، کسی کو بھی نہیں۔‘‘ ماسٹر مدثر کی تو جیسے کسی نے گویائی سلب کرلی۔ وہ یک دم خاموش ہو گیا۔

اُسے مکرم سے اتنے کرخت لہجے اور صاف جواب کی قطعاً اُمید نہ تھی۔ ’’اچھا! تُو ایسا کر، اُسے شہر کے کسی کالج میں داخل کروا دے، مجھ سے جتنی مدد ہو سکے گی، مَیں کردوں گا۔‘‘ مکرم نے تھوڑی دیر خاموشی کے بعد اُسے پیش کش کی۔ ’’ایسے تو میرے اپنے بھی کئی سخی دوست ہیں، جو اُس کی مالی مدد کرسکتے ہیں، مگر وہ بچّہ باقی مضامین میں زیادہ اچھا نہیں ہے۔

اُس کے پاس بس یہی ایک پیدائشی ہُنر ہے، اور مَیں اِسی لیے تیرے پاس آیا تھا۔‘‘ ماسٹر مدثر نے بہت دھیمی آواز میں کہا۔ ’’یار! نہیں، یہ کام نہیں ہو سکتا۔‘‘ مکرم نے ایک بار پھر صاف انکار کردیا۔ ’’یار! تُو تو بہت بڑا بخیل ہے۔‘‘ آخر ماسٹر مدثر کے شہد لہجے میں بھی تلخی در آئی۔ ’’کیا مطلب؟ مَیں کیسے بخیل ہو گیا؟

جتنی ہوسکے، دوسروں کی مالی مدد کرتا ہوں۔‘‘ مکرم کو ناگوار گزرا۔ ’’کسی عالم، فن کار اور ہُنرمند کی سب سے بڑی دولت اُس کا علم، فن اور ہُنر ہی ہوتا ہے۔ اگر وہ یہ علم، فن اور ہُنر اللہ کی رضا کے لیے دوسروں تک پہنچائے، تو یہی اُس کی سب سے بڑی سخاوت ہے۔ اور… اگر وہ اپنے علم، فن اور ہنر کو اپنے ہی تک روک لے، تو پھر اُس سے بڑا بخیل کوئی نہیں۔‘‘ 

ماسٹر مدثر نے رک کر مکرم کو دیکھا۔ ’’چوں کہ تُو اپنے ہنر کا ایک ٹکا کسی کو دینے کا روادار نہیں، تو میرے نزدیک تجھ سے بڑا بخیل بھی کوئی نہیں۔‘‘ ماسٹر مدثر بات ختم کر کے کمرے سے نکل گیا۔ اور مکرم اپنے آخری دوست کا بھی نقشِ پا ہی دیکھتا رہ گیا۔