• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال اور ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے آئی ایم ایف کی جائزہ ٹیم سے مذاکرات کے بعد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو جس کا میں ممبر ہوں، کو ایک اہم بریفنگ دی جس کا کچھ حصہ اِن کیمرہ تھا۔ انہوں نے کمیٹی کے ممبران کو بتایا کہ ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، گزشتہ 3 مہینوں سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ سرپلس، ایکسپورٹ اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے جو رواں مالی سال 35 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ سکتی ہیں۔ افراط زر 38 فیصد سے کم ہوکر 7 فیصد اور ہفتہ وار افراط زر 3.5 فیصد کی نچلی سطح تک آگیا ہے جس کے باعث اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ کم کرکے 15 فیصد کردیا ہے اور مانیٹری پالیسی کے 16 دسمبر کے جائزے میں مزید 2فیصد کمی ہوسکتی ہے۔ بینکوں کے شرح سود میں کمی ہوئی ہے اور Kibor، 12 سے 13فیصد پر دستیاب ہے جس کی وجہ سے نجی شعبے کے قرضوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اسٹاک ایکسچینج ایک لاکھ 13ہزار کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ حکومت کے زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 16.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر 12ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے ذخائر 4.6 ارب ڈالر شامل ہیں جو 2.5 مہینے کی امپورٹ کے برابر ہیں جبکہ اوورسیز پاکستانیوں کے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ (RDA) میں سرمایہ کاری9.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان کے قرضے جی ڈی پی کے 75 فیصد سے کم ہوکر 67 فیصد پر آگئے ہیں۔ پچھلی دو سہ ماہی میں ایف بی آر کے ریونیو وصولی ہدف میں تقریباً 344ارب روپے کی کمی ہوئی ہے جس پر آئی ایم ایف کو تشویش ہے۔ حکومت کی تاجر دوست اسکیم سے ستمبر 2024ءتک صرف 10 ارب روپے حاصل ہوئے ہیں جبکہ جون 2025 ء تک اس کا ہدف 50ارب روپے ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ میٹنگ میں وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم پر یہ واضح کردیا ہے کہ حکومت کوئی ٹیکس ایمنسٹی، ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ اور بجٹ کے علاوہ سپلیمنٹری گرانٹس منظور نہیں۔ میں نے وزیر خزانہ سے سوال کیا کہ کیا اس پابندی میں وہ 9اسپیشل اکنامک زونز بھی شامل ہیں جو سی پیک منصوبوں کا کلیدی حصہ ہیں جس میں خیبرپختونخوا میں راکا پوشی اور سندھ میں دھابیجی اسپیشل اکنامک زونز قابل ذکر ہیں۔ سیکرٹری خزانہ نے وضاحت کی کہ اس میں وہ اسپیشل اکنامک زونز شامل نہیں جو قائم کئے جاچکے ہیں لیکن حکومت کو 2035ءتک تمام اسپیشل اکنامک زونز کی مراعات کو ختم کرنا ہوگا۔

آئی ایم ایف نے یکم جنوری 2025ءسے صوبوں میں زرعی ٹیکس لگانے پر زور دیا ہے جس پر اب تک 3صوبے زرعی ٹیکس لگانے پر رضامند ہیں جبکہ سندھ سے مذاکرات جاری ہیں۔ آئی ایم ایف نے خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں (SOEs) بالخصوص ڈسکوز کی نجکاری کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ادارے یومیہ 2.2ارب روپے کا خسارہ کررہے ہیں اور گزشتہ 10سال میں قومی خزانےکا6000 ارب روپے کا خسارہ کرچکے ہیں جو ہمارے اس سال 12900ارب روپے کے ریونیو وصولی ہدف کا تقریباً 50 فیصد ہے جن میں پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل ملز بھی شامل ہیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں امپورٹ LCs کھولنے پر کوئی پابندی نہیں اور حکومت نے فارن کمپنیوں کے 2.2 ارب ڈالر کے منافعے بیرون ملک منتقل کئے جس سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ ہمارا المیہ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا بوجھ ہے۔ ہم جب بھی 4 فیصد سے زائد جی ڈی پی گروتھ حاصل کرتے ہیں تو ہمارا کرنٹ اکائونٹ، تجارتی خسارہ اور افراط زر بڑھنا شروع ہوجاتا ہے جس سے زرمبادلہ کےذخائر میں کمی اور روپے کی قدر گرتی ہے لہٰذا ہمیں 5 سے 6 فیصد تیز معاشی گروتھ حاصل کرنے کیلئے اپنی ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ہوگا جس سے نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہونگے۔ آئی ایم ایف نے کھاد اور زرعی ادویات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) لگانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اس اقدام سے کسان کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا۔

آئی ایم ایف معاہدے کی رو سے یکم جنوری 2025ءسے صنعتوں میں لگائے گئے کیپٹو پاور پلانٹس کو قدرتی گیس کی سپلائی بند کردی جائے گی تاکہ صنعتوں کو چلانے کیلئے ڈسکوز سے بجلی لی جائے اور بجلی کی کھپت میں اضافے سے کیپسٹی چارجز کی ادائیگیاں کم یا ختم کی جاسکیں۔ اس سلسلے میں میری حال ہی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی اور آئی پی پیز ٹاسک فورس کے چیئرمین محمد علی سے کراچی میں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آئی پی پیز پر لکھے گئے میرے کالمز کی تعریف کی جس سے آئی پی پیز سے مذاکرات میں مدد ملی جن میں 5آئی پی پیز کے معاہدے منسوخ، 18معاہدوں کی کیپسٹی سرچارج کے بجائے Take & Pay پر منتقلی اور حکومتی آئی پی پیز کے امپورٹڈ کوئلے کو مقامی کوئلے پر منتقلی جیسے وہ اہم فیصلے ہیں جس سے بجلی 65روپے فی یونٹ کے بجائے 26روپے فی یونٹ اور صنعتوں کو 9 سینٹ فی یونٹ بجلی دی جاسکے گی جبکہ چینی آئی پی پیز کی مدت میں بھی 3 سے 5سال تک توسیع شامل ہے جس سے گردشی قرضوں اور بجلی کی ناقابل برداشت قیمت میں کمی ہوگی۔

تازہ ترین