(گزشتہ سے پیوستہ )
جنگ ستمبر 1965ء سے قبل ہی پاکستان کا قومی ابلاغی دھارا اپنے حجم اور معیار دونوں میں سیاسی عدم استحکام متفقہ آئین سازی میں غیر معمولی تاخیر حتیٰ کہ نوبت نفاذمارشل لا کی نفاذ تک پہنچنے کے باوجود اپنی دو عشروں کی تاریخ میں حجم اور معیار ،ہر دواعتبار سے پاکستانی میڈیا تیز تر ارتقا کے مرحلے میں آگیا تھا۔ ان دو عشروں (اگست 47تا اکتوبر 1958) تک نئے نئے اخبارات و جرائد بشمول ترقی پسند تحریک کا میڈیا گروپ، نے تیزی سے جو ارتقائی شکل اختیار کی میڈیا ایجنڈا سیٹنگ میں مملکتی اور عوام ہر دو حوالوں سے نئی اقسام و مندرجات کے اضافے کی رفتار بہت اطمینان بخش رہی اور پروفیشنلز کی گرومنگ بھی تیز تر تھی اور اختراعی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (چینلز ) کے ملک میں ایکسپوژر کا دائرہ بھی ملک گیر رہا۔ ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد پرنٹ میڈیا میں اخبارات و رسائل کے اجرا کے بلند ہوتے گراف کے متوازی، اضافہ بھی ارتقا پذیر قومی ابلاغی دھارے کی وسعت و صحت میں اضافے کے ساتھ نئی مملکت کے پوٹینشل کی مطلوب صورت گری (SHAPING)کے تمام بنیادی تقاضے پورے کر رہا تھا۔
ریاست کے عوامی خدمات کے تمام شعبوں اور بالائی ریاستی ڈھانچے کے اداروں میں مقررہ ترقیاتی اہداف پورا کرتا کامیاب حصول اور گورننس کے معیار کو بلند کرنے کا بڑا معاون تو دو ہی عشروں میں بن چکا تھا گویا جدید دور کی بڑی قومی اور ریاستی ابلاغی ضرورت جدید کمیونیکیشن سیکٹر جسے راقم الحروف نیشنل کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم کا نام دیتاہے ، اپنے متوازی سیاسی عدم استحکام ڈکٹیٹر شپ اور حکومتوں کی بار بار کی رکاوٹوں اور فرنگی دور کی غیر ضروری اور عوامی مفادات کے خلاف پابندیوں کی پیچیدگی کے باوجود نتائج خیزی کے ساتھ اپنی آب وتاب دکھاتا ترقی کرتا رہا اور حائل رکاوٹوں کے خلاف اس کی مزاحمت بھی جرات مندانہ اور متحدہ رہی۔
قارئین کرام! مملکت و عوام کو اپنے منظم اور مسلسل تیز تر ارتقا سے ہمارے قومی ابلاغی دھارے نے جو بھرپور اور نتیجہ خیز پیشہ ورانہ اور علمی خدمات پہلے ہی دو عشرے میں فراہم کیں اس کے مقابل قومی صحافت اور اس کی آزادی کے خلاف حکومتی رویہ اور اقدامات بحیثیت مجموعی معاندانہ اور منفی ہی نہیں غیر جمہوری اور ماورا آئین و حلف ہی رہے۔ مجموعی ملکی صحافت بشمول سرکاری نے (باامر مجبوری) بھی پھر بھی گراں قدر قومی خدمات انجام دیں اس میں وہ قومی صحافت حکومتی مخاصمت اور بیزاری حتیٰ کہ جابرانہ طرز حکومت کا مقابلہ کرتے قوت اخوت عوام کی تائید و معاونت و ہم آہنگی سے ثابت قدم رہتے بہتر مستقبل کے سفر پر گامزن رہی ۔ یوں غیراعلانیہ اور پروفیشنل مزاج کے حامل نیشنل کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم کے پیشہ وروں نے حکومتی جملہ رکاوٹوں اور مسلسل آمرانہ کیلئے قومی معاون ابلاغی دھارے کے مطلوب تشکیل و معاونت کا مشن جاری رکھا۔
ایوبی دور میں ترقی پسند تحریک کے معاون اخبارات و جرائد اور نجی شعبے کے ہی اپوزیشن کو اس کے آئینی و جمہوری حق کے مطابق پیشہ ورانہ توجہ دینے والے پرنٹ میڈیا کے ایک بڑے سیکشن کو حکومتی تحویل میں لینے اور اس سے باہر آزاد منش کو مسلسل جملہ اقسام کے دبائو میں رکھنے کے آمرانہ اقدامات ،تشکیل پذیر قومی ابلاغی دھارے کے عمل میں بڑی رکارٹ بنے ان میں بڑا حکومتی قدم ایوبی مارشل لا کے نتیجے میں نیشنل پریس ٹرسٹ (این پی ٹی) کا سرکاری ادارہ قائم کرکے کوئی آٹھ برس اخبارات و جرائد کو این پی ٹی تحویل میں دے دیا گیا ،جو کہنے کونیم لیکن مکمل سرکاری کنٹرول کا ادارہ تھا پاکستان میں قومی صحافت کے ارتقا میں رکاوٹوں کی یہ عجب تاریخ بنی کہ مارشل لائی اور سول دونوں ہی طرز کی حکومتوںکا غیراعلانیہ اتفاق و ا تحاد اس پیچیدگی پیدا کرنے پر تادم قائم ہے کہ حکومت کو میڈیا کو ممکنہ حد تک دبا کر ہی رکھناہےاورجوآزادی قومی صحافت اپنی کمٹمنٹ مزاحمت اور عوامی اعتماد و حمایت کے زور پر حاصل ہوتی اسے اپوزیشن کی بھی بھرپور تائید ملتی رہی جبکہ اپوزیشن حکومت میں اپنے میڈیا کیخلاف مائنڈ سیٹ حکومتی رویے اور اقدامات کے ریکارڈ کی حامل ہوئی۔ ایوب خان کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت مارچ 1968تا انتخابی مہم 1970ء بھٹو صاحب کے عوام اور صحافیوں سے کئے گئے 37وعدوں میں نیشنل پریس ٹرسٹ کو ختم کرنے کاوعدہ ہمارے صحافتی ریکارڈ کے آرکائیو میں موجود ہے، یہ ڈیٹا آزادی صحافت اورصحافتی ٹریڈ یونین ازم کے علمبردار نثار عثمانی صاحب اختتام بھٹو رجیم کے اختتام جولائی 1977اور ضیائی مارشل لا کے نفاد تک جمع کرتے رہے لیکن این پی ٹی دوسرے ضیائی مارشل لا میں بھی جاری رہا پھر ہی کچھ ایوبی دور کے پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس 1962ء کا نفاذ جملہ صحافتی پابندیوں کے ساتھ ضیاء حکومت کی اختتام تک نافذ رہا تاہم کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹر صدر جنرل ضیاءالحق سے اسے منسوخ کرانے میں ان کی زندگی اور حکومت کے آخری مہینے میں کامیاب ہوگئی۔صرف اس شرط کیساتھ کہ متبادل میڈیا لا پیش کیا جائے سو بعدازسانحہ بہاولپور اگست 1985ءکے بعد مصطفیٰ جتوئی کی عبوری حکومت میں سی پی این ای اور صحافتی تنظیمیں اس غیر جمہوری میڈیا لا کو منسوخ کرانے میں کامیاب ہوگئیں جس سے پاکستان میں آزادی کا ایک بڑا باب تحریر ہونے لگا۔
آج جبکہ پاکستان کا قومی ابلاغی دھارا مکمل آلودہ وپیچیدہ ہو کر معاشرے میں ابتری اور اضطراب کا باعث بنا ہوا ہے جبکہ اس کے پوٹینشل اور قومی خدمات کی ڈلیوری کی کیپسٹی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اب یہ وہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو پاکستان نیشنل کمیونیکیشن فلو کی کامیابیوں اور مزاحمت کی نئی تاریخ قومی ابلاغی دھارے کا غیر معمولی حد تک بڑھنے کے بعد پیدا ہوئی ہے ان کی موجود مایوس کن صورتحال کا تقاضہ ہے کہ موضوع سے متعلق تمام سرکاری اور نجی اسٹیک ہولڈرز قومی ابلاغی دھار ے کی اختیار کی گئی مہلک شکل بشمول بیش بہا فوائد کے حامل سوشل میڈیا کے مجموعی کردار و پریکٹس پر نظر رکھیں ،اس کا فوری جائزہ لیں لیکن اس طرف متوجہ ہونے کا آغاز جاری موضوع پر راقم الحروف کی کالم سیریز میں تادم بیان کی گئی دو عشروں کی صحافتی تاریخ کی جدوجہد کو ذہن نشیں کر لیں کہ یہ وقت کا سلگتا تقاضا ہے ۔(جاری ہے)